مسائل کو حل کرنا نہیں چاہتے !

   

خیر اللہ بیگ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری
ہڑتالکا جنون رکھنے والے لیڈر کو ہی آج اسی کے ہتھیار سے ڈرایا جارہا ہے ۔ آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو اگر اندر سے کمزور کیا ہے تو پھر یہ ہڑتال کامیاب کہلائے گی ۔ بظاہر چیف منسٹر کمزور پڑتے دکھائی نہیں دیتے ۔ تلنگانہ میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا مزاج نیا نہیں ہے ، لیکن ماضی کی ہڑتالوں اور آج کی آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال میں فرق یہ ہے کہ تلنگانہ میں اس وقت ایک بیکار کمزور اپوزیشن ہے ۔ ہڑتالی ملازمین کے خلاف حکومت کے سخت فیصلوں پر احتجاج کرنے کی طاقت نہیں ہے ۔ اس ہڑتال کو عوام کی بھی تائید نہ ملے تو پھر اس کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار خود ہڑتالی ملازمین کی قسمت پر ہے ۔ 1970 کی ہڑتال میں آج کی ہڑتال میں فرق یہ ہے کہ سابق میں مزدور یونین یا ملازمین کی یونینوں نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا ۔ آج کے سی آر کی حکومت کو مجبور کرنے کی کوشش تو کجا راضی کرانے کا بھی زور دکھائی نہیں دیتا ۔ ریاست تلنگانہ ایک نازک صورتحال سے دوچار ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت ، ریاست کی قسمت پر ہر خرابی و برائی کا ملبہ ڈال رہی ہے ۔ اپنی ہٹ دھرمی اور جارحانہ موقف کے ذریعہ عوام بالخصوص سرکاری ملازمین کو خوف زدہ کررہی ہے کہ اگر کسی نے بھی آواز اٹھانے کی کوشش کی تو اس کا حشر برا کردیا جائے گا ۔ دسہرہ کے موقع پر تنخواہوں سے محروم آر ٹی سی ملازمین کے دل سے کوئی پوچھے کہ ان کا یہ تہوار کیسا گذارا تو وہ اپنے دل کے چھالوں کو چھپائیں گے نہیں ۔ حکومت کے رویہ کے بعد کسی کو داد و فریاد کے لیے حکومت کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ مسائل کو حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ سسٹم کو مستحکم اور محفوظ کرنا تو بہر حال حکمراں کی ذمہ داری ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمران نے اپنی سوچ کے ذریعہ جو سسٹم بنالیا ہے اس کو ہر ایک پر مسلط کرنا شروع کیا ہے ۔ نتیجہ میں خرابیاں پیدا ہورہی ہیں ۔ آر ٹی سی ملازمین نے 4 اکٹوبر کی نصف شب سے ہڑتال شروع کی ۔ اپنے 26 مطالبات کی فہرست کے ساتھ ان کی یہ ہڑتال غیر موثر ثابت ہوجائے تو پھر یوں سمجھئے کہ 50 ہزار ملازمتیں چھین لی جائیں گی اور ان کے 50,000 خاندانوں کو سڑک پر پہونچا دیا جائے گا ۔ کل تک عوام کی واہ واہ اور داد سمیٹنے والے کے سی آر کو آج عوام کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے ۔ تلنگانہ کی سیاست میں اگر 2014 سے پہلے کی سیاست کا جائزہ لیں تو ہڑتالوں ، دھرنوں ، تشدد ، توڑ پھوڑ کرنے والوں میں طاقتور سیاسی قائدین شامل تھے ۔ آج بے چارے تنخواہ یاب ملازمین پرامن ہڑتال کررہے ہیں تو ان کی اس ہڑتال کو خاطر میں نہیں لایا گیا ۔ اس لیے یہ احتجاج کا کاروان حکومت کی دھندلکوں میں بھٹک رہا ہے ۔ آر ٹی سی ملازمین اپنی غیور امنگوں اور مطالبات کو منوانا چاہتے ہیں تو جذبات کے بجائے ہوش سے کام لیں کیوں کہ جذباتی لوگ بہت جلد ناراض ہوجاتے ہیں ۔ ان کی ناراضگی کا حکومت کوئی نوٹ لینے والی نہیں ہے ۔ آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ حکومت کے پاس ان کے احتجاج کا کوئی وزن نہیں ہے ۔ ملک کو تیزی سے انارکی کی جانب لے جانے والے موجودہ حالات میں ہڑتال بے اثر ہوجائے تو یہ ایک بڑا المیہ ہوگا ۔ ملک انارکی کی جانب اس لیے جائے گا کیوں کہ مرکز میں اندھا دھند بیانات دینے والے قائدین زبان درازی پر اتر آئے ہیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہندوستان کو ہندوراشٹرا بنایا جائے گا ، کوئی کہہ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل مہاجرین کو ملک سے باہر نکال دیا جائے گا ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ رام مندر اب راتوں رات بنایا جائے گا۔ سرحد پر کشیدگی کے حالات نے فوج کو متحرک کردیا ہے ۔ مرکز کی مودی حکومت ملک کے لیے کتنا بڑا خطرہ ثابت ہوگی یہ وقت بتائے گا ۔ لیکن یہ طئے ہے کہ اس ملک کے غریب عوام کو سب سے زیادہ خطرہ معاشی تباہی سے ہے ۔ معاشی محاذ پر حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ اس کی پردہ پوشی کے لیے مرکزی حکمراں قائدین ہندوراشٹرا بنانے ، رام مندر تعمیر کرنے اور مہاجرین کو نکال باہر کرنے جیسے بیانات سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ہندوستان آیا ہندوراشٹرا بنادیا جائے گا ، یہ ممکن نہیں ۔ ہندوؤں کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کا نام ہی ہندو استھان سے رکھا گیا ہے جب کہ تاریخی حقیقت یوں بیان کی جاتی ہے کہ ہندوستان کا مطلب ہندوؤں کا مقام یا خطہ نہیں ہے بلکہ یہ اس سرزمین کا نام فارسی اور عربی بولنے والوں کی دین ہے ۔ دریائے سندھ کے اس پار کی سرزمین یعنی برصغیر ہند کو عربوں نے الہند کہا ہے ۔ اسی طرح سرزمین ہند میں رہنے والوں نے اس ملک کو ’ ہند ‘ کا نام نہیں دیا بلکہ ’ بھارت ‘ کہتے آئے ہیں ۔ لہذا ہندوستان دراصل فارسی اور عربی کا ملا جلا امتزاج ہے ۔ اس سے ملتے جلتے استان نام میں افغانستان ، غزقستان ، کرغستان ، تاجکستان ، ازبکستان ، ترکستان وغیرہ شامل ہیں ۔ ہندستان کو ہندوستان بناکر ہندو راشٹرا کی جانب لے جانے کا اعلان صرف ایک گروہ کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے تاکہ عوام مودی حکومت کی خرابیوں سے بے خبر رہیں ۔ اس وقت مودی حکومت کی کارکردگی صفر پر ہے ۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ۔ عوام رو رہے ہیں ۔ کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں اور مارکٹس ، کمپنیاں بند ہورہی ہیں ۔ اچھی حکمرانی خراب حکمرانی کی اصطلاح میں سوچنے والوں کے سامنے صرف خراب حکمرانی ہی ہے ۔ ایسے حالات ریاست تلنگانہ میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں ۔ حکومت کنگال ہوچکی ہے ۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینا مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ پراجکٹس سست روی سے چل رہے ہیں ۔ گتہ داری کے بلس کی ادائیگی میں تاخیر سے کام لیا جارہا ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت میں فرد واحد کا غلبہ ہے ۔ فیصلہ سازی کا اختیار بھی یکطرفہ ہونے سے پارٹی کے دیگر عوامی قائدین کو مایوسی ہورہی ہے ۔ ریاست تلنگانہ میں خواب بیچنے والوں نے اب عوام کو یہ تاثر دینا شروع کیا ہے کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے ۔ یہ باتیں ان لوگوں کی زبان سے سنی جارہی ہیں جو کل تک کے سی آر کے مدح تھے ۔ ٹی وی مباحث میں کے سی آر کی بہت تعریف کرتے تھے ۔ آج یہی لوگ ٹی وی کے ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپنے خیالات ظاہر کررہے ہیں اور اپنی مایوسی کا اظہار بھی کررہے ہیں ۔ کے سی آر کے چاہنے والوں میں سے چند ایک کے لیے امید کی کرن اس حد تک باقی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کے سی آر چیف منسٹر کا فریضہ بہت محسن طریقہ سے انجام دے رہے ہیں ۔ ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال سے فی الحال حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ تاہم ٹی آر ایس میں کتنا دَم ہے اس کا اندازہ حضور نگر اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخابی نتائج سے معلوم ہوگا ۔ ٹی آر ایس کو کامیابی ملتی ہے تو کے سی آر کا سیاسی نفس مزید موٹا ہوجائے گا اور ریاست میں ہڑتال اور دھرنے کی سیاست حرام ہوجائے گی کیوں کہ کے سی آر کو جن لوگوں نے سمجھا ہے انہوں نے ’ چپ ‘ اختیار کرلی ہے ۔٭
kbaig92@gmail.com