مسلمانوں کو اپنے لیڈروں کے راز معلوم نہیں ؟

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
مسلمانوں کے لیے سکون کی زندگی تو صرف قبر میں ہی ہوتی ہے ۔ ہمارے ملک کے وزیراعظم اور وزیر دفاع نے صاف انداز میں کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو شہریت ترمیمی قانون پر خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مرکز کی حکومت کہہ رہی ہے تو پھر سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو سکون کی سانس لینے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو وزیراعظم اور وزیر دفاع کی بات میں گہرائی کی اندازہ نہیں ہے ۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا ہے کہ وزیراعظم بھی ملک کے عوام کو اپنے چھوٹ سے گمراہ کرتا ہے ۔ بدانتظامی اور مہنگائی کی وجہ سے جہاں عوام پریشان ہیں وہاں سی اے اے کے خلاف احتجاج کو اصل موضوع بنانے کی بھی حکومت نے گہری چال چلی ہے ۔ شاہین باغ میں احتجاج کے حوالے سے ہندوستانی مسلمانوں کی بڑی تعداد گھروں میں بیٹھ کر خوش اور مطمئن ہے کہ سی اے اے کے خلاف شاہین باغ کی مسلم خواتین کی آواز ایک دن رنگ لائے گی ۔ یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ شاہین باغ طرز کا احتجاج ملک کے کئی شہروں میں ہورہا ہے تو حیدرآباد شہر اس سے بہت پیچھے کیوں ہے ۔ شاہین باغ دہلی اور حیدرآباد میں فرق یہ ہے کہ دہلی میں حکومت اور پولیس نے شاہین باغ کی مسلم خواتین کو گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کی کیوں کہ یہ جانتے ہیں کہ اگر ایسا ہوجائے تو مسئلہ بھیانک ہوجائے گا ان احتجاجی مسلم خواتین کی تائید میں سارا دلی اُمڈ پڑے گا ، لیکن حیدرآباد کی مسلم خواتین کو اس طرح کا ماحول نصیب نہیں ہے ۔ یہاں کی چند مسلم خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا تو کے سی آر کی پولیس نے انہیں گھسیٹ کر کنٹرول روم لے گئی اور طرح طرح کے مقدمات میں ماخوذ کیا ، کسی نے آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی ان مسلم خواتین کی گرفتاری کا حکم دینے والوں کو سبق سکھایا ۔ اس کے بعد شہر حیدرآباد میں احتجاجی مظاہرے پھس پھس طور پر ہوتے رہے ۔ البتہ شفاخانہ چارمینار پر نظامیہ طبی کالج کے طلباء گذشتہ 20 دن سے احتجاج کررہے ہیں ۔ لیکن ان کے اس احتجاج سے اظہار یگانگت کرنے کے لیے حیدرآبادیوں کو توفیق نہیں ہوسکی ۔ یہاں کے لوگ اس قدر غفلت کا شکار ہوتے جارہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے ان کا بہت جلد تیل نکالا جانے والا ہے تو اس کی فکر ہی نہیں ہے ۔ کچھ نہ کر کے بھی مطمئن ہیں کیوں کہ ان کی قیادت جو ہے بڑی بڑی تقاریر کر کے انہیں مطمئن کرانے کا ملکہ رکھتی ہے ۔ بلا شبہ یہ قیادت اس قدر ہوشیار ہے کہ وہ باشعور حیدرآبادی مسلمانوں کو بھی لاشعور بنادیتی ہے ۔ سی اے اے ایک خطرناک قانون ہونے کا احساس ہونے کے باوجود کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے بھی تمام 143 درخواستوں کو خاطر میں نہ لاکر سی اے اے پر حکم التواء دینے سے انکار کردیا ۔ سپریم کورٹ کے اس واقعہ کے بعد تو سارے ملک میں شدید ردعمل ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سی اے اے کے خلاف ایک ماہ سے جاری احتجاج سرد بنانے میں وہ طاقتیں کامیاب ہورہی ہیں جو مسلمانوں سے پاک انڈیا کے خواب کی تعبیر کے لیے بے چین ہیں ۔ عدالتیں بھی وہی زبان بول رہی ہیں جو حکمراں چاہتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ مرکزی حکومت اپنی بات عدالتوں کی زبان سے ادا کروا رہی ہے ۔ اس لیے حساس لوگ زیر لب تنقید کررہے ہیں کہ جب ضلع عدالتوں کے سیشن ججوں کو ان کی وفاداری کا انعام دے کر بڑی عدالتوں کی ذمہ داری دی جاتی ہے تو سیشن جج ، السیشن جج لگ رہے ہیں ۔ ایسے السیشن جج ہندوستان میں ہی نہیں دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی ہوتے ہیں ۔ جو کسی مسئلہ کا حل نکالنے کے بجائے منہ میں حکمراں طاقتوں کا جھاگ بھر کر اونچی آواز میں فیصلے کرتے ہوئے عوام کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہونچاتے ہیں ۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کیوں کہ یہ قوم ہی تو ہے جو اونچی آواز سننے کی عادی ہورہی ہے خاص کر حیدرآباد کے مسلم علاقوں میں رہنے والے لوگ شور شرابے کے عادی ہوچکے ہیں ۔ رات کے دو ، دو بجے تک جاگ کر چبوترہ میٹنگ میں لاحاصل گفتگو کرتے ہیں ۔ پان سگریٹ کی دکانوں اور گھروں میں گانوں کی کیسٹ پورے والیم کے ساتھ آن کر کے سنتے ہیں ۔ شادی کی بارات دھوم دھام سے پٹاخہ بازی ، سامہ نوازی سے نکالتے ہیں یہ تمام چیزیں حیدرآبادیوں کی عادت میں شمار ہوتی ہیں ۔ لیکن یہ ساری توانائی ان فضولیات میں صرف کرنے کے بعد شاہین باغ کی طرز کا احتجاج کرنے کی قوت کہاں باقی رہے گی ۔ آواز میں بھی دم کہاں رہے گا۔ ایک دن یہ لوگ بے آواز ہو کر رہ جائیں گے ۔ یہ مسئلہ تو مسلمانوں کا ہے لیکن اس سے بڑا مسئلہ اس ملک کا حکمراں ہے کہ وہ تو اخلاقی اور سیاسی محاذ پر شکست کھا چکا ہے ۔ وہ اپنے خلاف معقول دلائل کو بھی قبول نہیں کررہا ہے ۔ بلکہ فرقہ پرستانہ نظریہ کے توپوں سے سیکولر عوام کی آواز کو اس طرح دبانے کی کوشش کررہا ہے کہ گویا وہ سمجھ چکا ہے کہ سیکولر عوام کے اندر اب سکت باقی نہیں رہی ۔ اگر سکت ہوتی تو سی اے اے کے خلاف ملک بھر میں اس قدر یکساں شدید احتجاج ہوتا کہ فرقہ پرستوں کے قلعہ مسمار ہوجاتے ۔ چھوٹے چھوٹے گروپ کے احتجاج سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ یہ گروپ احتجاج میں شریک بیشتر افراد کو سیلفی لینے سوشیل میڈیا پر اپنے احتجاج کو وائرل کرانے کا شوق ہے ۔ اس شوق کو پالنے والے لوگ اصل احتجاج کو بھی کمزور کررہے ہیں ۔ فیس بک ، واٹس ایپ ، ٹوئیٹر ، انسٹا گرام کی دنیا میں پھنسے لوگ حکمرانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ فیس بک یا سوشیل میڈیا پر بڑے بڑے فراڈ ہورہے ہیں اور یہ دھوکہ کی دکان ہے جس میں شامل ہونے والے بھی خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ فیس بک فرینڈس کے کارناموں کو لائک کرنے اور شیر کرنے میں ہی مصروف ہیں ۔ ایک خاتون کی موٹر کار کسی چوراہے کے سگنل پر رکی تو ایک فقیر نے خاتون کی طرف ہاتھ بڑھا کر بھیک مانگا ، خاتون نے فقیر کی طرف غور سے دیکھا اور کہا کہ لگتا ہے میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہے ۔ وہ بولا ’’ میڈم میں آپ کا فیس بک فرینڈ ہوں ‘ ۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے بیشتر افراد بھی اپنے فیس بک فرینڈ کو بتانے کے لیے اس سے لائک حاصل کرنے کے لیے احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں تو پھر ان کا یہ علامتی احتجاج سی اے اے کی کھوٹی پر لٹک جائے گا اور اس وقت کوئی بھی فیس بک فرینڈ آپ کو لائک کرنے والا نہیں رہے گا ۔ سیلفی لینے والے وزیراعظم نے سارے قوم میں سیلفی کی عادت ڈالدی ہے ۔ اس لیے مخالف سی اے اے احتجاج مظاہروں میں یہ لوگ اپنی سیلفی لے کر موج کررہے ہیں ۔ مسلمانوں کے قاتلوں کی سیلفی عادت کو خود مسلمان اپنی عادت بنا رہے ہیں تو یہ سیلفش ہوجائیں گے اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جنازے اٹھاتے ہوئے بھی سیلفی لیں گے ۔ سوشیل میڈیا پر سی اے اے کے خلاف احتجاج کے مناظر دیکھنے والوں کو سلام ہے کہ انہوں نے اس قدر لائک کرنا شروع کردیا ہے کہ ٹک ٹاک پر بھی لوگ دھوم مچانے لگے ہیں ۔ ملک کا وزیر داخلہ سی اے اے پر بحث کرنے کو چیلنج کرتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ داڑھی والے سے بحث کرو تو بتادیں گے کہ داڑھی والا کیا کرسکتا ہے ۔ یہ سب سوشیل میڈیا کے ڈائیلاگ ہیں بابا ۔ حقیقت میں تو مارے ویسا کر میں روئے ویسا کرتا ہوں ۔ اس کنول کے پھول کو کس پانی میں اگایا گیا ہے یہ تو سب جانتے ہیں ۔ داڑھی کی بات کرنے والے کو کم از کم حیدرآباد کی پاک مٹی کا تو خیال رکھنا چاہیے ۔ حیدرآباد کے مسلمان کتنے خوش قسمت ہیں کہ وہ اپنے لیڈروں کے رازوں سے واقف نہیں ہیں ۔۔
kbaig92@gmail.com