متنازعہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کو وضاحت کیلئے عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت
نئی دہلی۔ :ملک اکثریتی طبقہ کے حساب سے چلے گااور مسلمانوں کو لے کرکٹ ملاجسے متنازعہ بیان دینے والے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو تنازعات میں گھر گئے ہیں۔ متنازعہ بیانات کے بعد ہنگامہ ہونے پر بعد سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر بڑا ایکشن لیا ہے۔ سپریم کورٹ کالجیئم نے جسٹس شیکھر کمار یادو کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کیلئے سمن بھیجا ہے۔ جسٹس شیکھر کمار یادو کو اپنے متنازعہ بیانات پر وضاحت دینے کو بھی کہا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جسٹس شیکھر کمار یادو نے وشو ہندو پریشد کی لیگل سیل کی طرف سے منعقدہ ایک پروگرام میں متنازعہ بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک کا قانون اکثریتی طبقہ کی خواہش کے مطابق چلے گا۔میڈیانے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ملک کے چیف جسٹس جسٹس سنجیو کھنہ کی صدارت والا کالجیئم اس معاملہ پر جلد ہی سماعت کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق، سپریم کورٹ کے موسم سرما کی تعطیلات یعنی 17 ڈسمبر سے پہلے سپریم کورٹ اس معاملہ پر غور کرے گا۔ اس سے پہلے 10 ڈسمبر کو سپریم کورٹ نے بیان سے متعلق میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ سے رپورٹ طلب کی تھی۔ سپریم کورٹ کے ایک آفیشل بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے موجودہ جج جسٹس شیکھر کمار یادو کے ذریعہ دیے گئے بیان کی خبروں پر نوٹس لیا ہے۔ ہائی کورٹ سے دیگر تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں اور معاملہ زیر غور ہے۔8 ڈسمبر کو پریاگ راج میں وشو ہندو پریشد کے ایک پروگرام میں جسٹس یادو نے یکساں سیول کوڈ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ہے۔ قانون دراصل اکثریت کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔ اسے خاندان یا سماج کے تناظر میں دیکھیں۔ بس وہی قبول کیا جائے گا جس سے اکثریتی طبقہ کو خوشی اور فائدہ ملے۔سوشل میڈیا پر اس بیان کو لے کر خوب ہنگامہ ہوا تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے جج کی اس رائے کو تقسیم کرنے والا اور غیر آئینی قرار دیا تھا۔وہیں قانون سے جڑے افراد نے بھی اس پر سنجیدہ سوالات اٹھائے تھے۔ سینئر وکیل پرشانت بھوشن اور سی پی آئی (ایم) کی رہنما برندا کرات نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو خط لکھ کر کہا تھا کہ یہ تبصرہ جج کے عہدہ کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا نے بھی اس تبصرے کی مذمت کرتے ہوئے ایک قرارداد پاس کی تھی۔ اس بیچ 55 اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ نے گزشتہ جمعہ کو راجیہ سبھا میں جسٹس شیکھر یادو کے خلاف مواخذے کی کارروائی کی مانگ کرتے ہوئے ایک نوٹس دائر کیا تھا۔