مسلمان لوگو میں بھی برداشت نہیں !!ہندو مسلم میری دو آنکھیں صرف جملہ

,

   

تلنگانہ تقاریب
حیدرآباد۔23۔ مئی ۔ (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ قیام تلنگانہ کے 10 سالہ تقاریب کے سلسلہ میں جاری کئے گئے لوگو میں تاریخ تلنگانہ اور تاریخی عمارتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے شخصی اور حکومت کی تشہیر کا ذریعہ بنایا ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے قیام تلنگانہ کی تقاریب کے سرکاری لوگو کی گذشتہ یوم اجرائی عمل میں لائی لیکن اس لوگو میں ریاست کی تاریخ سے جڑی ہوئی ایک تصویر کو شامل رکھا گیا ہے اور وہ یادادری مندر کی تصویر ہے جبکہ مابقی تمام تصاویر جو استعمال کی گئی ہیں وہ تلنگانہ تلی کا مجسمہ ‘ بتکما کے پھول ‘ بونال کے گھڑے ہیں۔ ہندو ۔مسلم کو اپنی دو آنکھیں قرار دینے والے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے جو نظام دکن کے نظریہ کو روبعمل لانے کے علاوہ ملک میں نمبر ون سیکولر چیف منسٹر ہونے کے دعوے کرتے ہیں نے جو 10سالہ تقاریب کا لوگو جاری کیا ہے اس میں امبیڈکر کے مجسمہ ‘ سیکریٹریٹ کی نئی عمارت‘ نوتعمیر شدہ یادگار شہیدان تلنگانہ ‘ کالیشورم پراجکٹ ‘ رعیتو بیمہ اسکیم ‘ مشن بھگیرتا‘ برقی سربراہی وپیداواراور ائیر پورٹ میٹروریل پراجکٹ کی تصاویر اس لوگو میں شامل کی ہیں۔ چیف منسٹر کی جانب سے 10 سالہ تقاریب کے سلسلہ میں جاری کئے گئے لوگو میں تک مسلمانوں کو اور ان کی تاریخ کو بری طرح سے نظرانداز کیا گیا ہے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تلنگانہ میں مسلمانو ںکا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ تشکیل تلنگانہ سے قبل کے چندر شیکھر راؤ نے سماجی مساوات پر مبنی ریاست کی تشکیل اور سنہرے تلنگانہ کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کی حکومت کے اقدامات یہ واضح کر رہے ہیں کہ ریاست تلنگانہ میں حکومت مسلمانوں اور ان کی تاریخ کے تذکرہ سے بھی خوفزدہ ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ ریاست تلنگانہ کے سیکولر کردار کو عیاں کیا جائے۔ لوگو میں یادادری مندر‘ بونال کے گھڑے ‘ بتکماں کے پھول ‘ اور تلنگانہ تلی کا مجسمہ ریاست کے اکثریتی طبقہ کی نمائندگی کرنے والی 4تصاویر ہیں جبکہ اس لوگو میں تاریخی چارمینار‘ مکہ مسجد یا کسی اور مقام کی تصویر شامل کرتے ہوئے مسلمانوں کی نمائندگی کو بھی یقینی بنایا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہ کرتے ہوئے ریاستی حکومت اور لوگو کے تیارکنندگان نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ تشکیل تلنگانہ کے اندرون 10 برس میں مسلمانوں کو فراموش کردیا گیا ہے اور ان کی تاریخ بالخصوص تاریخ دکن کو بھی فراموش کروایا جائے گا۔ لوگو کی تیاری میں اردو کا استعمال نہ کرتے ہوئے حکومت نے دوسری سرکاری زبان سے لسانی تعصب کو بھی ظاہر کیا ہے۔