مسلم نوجوان سرمایہ ملت! اے میرے مسلم نوجواں! از: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

   

مسلم نوجوان سرمایہ ملت!

اے میرے مسلم نوجواں! از: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ “مجھے نوجوانی کی عبادت پسند ہیے۔”

پیارے نبیۖ نے فرمایا

“قوی مومن ضعیف مومن سے بہتر ہیے۔”

اسلامی تاریخ میں نو جوان مومنین نے بڑے حوصلے دکھائے اور ہر میدان میں علم وعمل کےجھنڈے گاڑدیے ۔ ان کی قوت،جوانی، جذبات، عزم وحوصلہ، جرات، صبر وثبات، ایثار وقربانی، اخلاق و کردار، ذینی قوت وصلاحیت، اگر بگاڑ سے نکل کر بناؤ کے لیے ہو جائے تو ہر سطح پر یہ ملت کی قیادت و نمایند گی کر سکتے ہیں ۔قوموں کے عروج و زوال ان ہی کے مرہونِ منت ہیں نوجوان ملت کا ہراول دستہ اور قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کے اخلاق، والدین سے فرمانبرداری، بڑوں کا ادب، نشہ سے دوری، اچھی صحت، کردار کی عظمت، خیر خواہی، حلم و بردباری، جفاکشی، مقصد سے لگن، اعلیٰ تعلیم، عزت نفس، پیشے میں عروج وکمال یہ سب ان کا حاصل ہیے؟؟؟؟

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے

وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہیے ٹوٹا ہوا تارا

تجھے پالاتا اس قوم نے آغوش محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا

اے نوجوں مسلم!

تمہارے اجداد کیا تھے ؟اور تم کیا ہو؟؟؟

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ وہ کردار تو گفتار وثابت تو سیارہ

نوجوان اپنے آپ کوخوف، مایوسی، قنوطیت، اور تلخ یادوں سے کلیتاََ آزاد کرنے کی کوشش کیجئے ۔روز مرہ کے مشاغل، آپ کی گفتگو کے موضوعات، آپ کے کپڑوں فیشن اور بالوں کی تراش خراش،نشہ آور چیزوں کا استعمال، نامناسب الفاظ اور لہجہ کا غلط استعمال، غیر محتاط گفتگو، تنقیص، بھدی تنقید، پھوہڑ مذاق،رواداری کی کمی، آپ کا دین اسلام کے مطالعہ سے دوری، دین پر عمل کی کمی، اخلاق وکردارکا سفلہ پن، نفسانیت، مزاج کی بے اعتدالی، تنگ دلی، ضعف ارادہ ،خود پسندی، داخلی و خارجی، حسد، خود ساختہ مسائل،جھوٹ،افتراسازشیں ،الزام جواب الزام، اسلام کے قرانی اور صحیح فہم سے ناواقفیت، کبروغرور،نمودونمائسے جو تصویر ابھرتی ہیے وہی ملت کی تصویر اور موجودہ حالات میں آپ کی حیثیت اور مقام طے کرتی ہیے۔۔

کیا زمانے میں پن اپنے کی یہی باتیں ہیں؟

اگر آخرت کی جواب دہی کا احساس ہیے تو پھرتقوٰی، سچائی، حق پرستی، حق گوئی، متانت، سنجیدگی، دعوت آپ کے میدان اور وقار آپ کی زینت ہیے

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا-

آج اپ کے مد مقابل قومیں ترقی کے کس مقام پر کھڑی ہیں ۔ان کی قابلیت کا مقابلہ کرنے کے لیے کیسی محنت اور کس درجہ کی تیاریاں چاہیے؟ کیا اس حالت میں رہ کر آپ اپنا کھویا مقام حاصل کر سکیں گے؟کیا عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لیے آپ نہیں سوچتے؟؟ عظیم کام طاقت سے نہیں ثابت قدمی سے کیے جاتے ہیں۔

آپ کے ہم عمروں کو اسلام کی دعوت کون پہنچائے گا۔علم وتحقیق کے میدان میں کون آگے بڑھ کر اپنا مقام پیدا کرے گا؟

ملت کو آپ سے بڑی توقعات ہیں ۔ اپنے ذہنی افق کو وسعت دیجیےلوگوں سے خندہ پیشانی سے ملیے۔ ان سے محبت، نرمی واخلاص سےبات کیجیے۔شفقت اور تواضع کے ساتھ چھوٹے بڑوں کے ساتھ پیش ائیے۔اگر آپ میں خود آگہی، مثبت عزت نفس، تشخص ذات، خود نظمی، پر امیدی، خود تحریکی، اپنی ذات کا احترام ہیے تو اپنے دماغ کو بے بنیاد خوف سے آزاد کر لیجیے۔

جو مقدر نہیں اس کا خوف نہیں، جومقدر ہے اس سے مفر نہیں ۔جب تک حالات کی تلخی کا مزہ نہ چکھوگے تم بڑائی اور عظمت کو نہیں پاسکتے۔بلند مقام صرف خواہشوں اور آرزوؤں سے حاصل نہیں ہو تا بلکہ عزم وحوصلہ اور تدبیر وعمل سے ہوتاہیے۔

اس زندگی پہ موت کو ترجیح دیجیے

جس زندگی میں عزم نہ ہوحوصلہ نہ ہو

اپنے کاموں کی منصوبہ بندی کیجیے، ترجیحات طے کیجیے، قرآن سے تعلق جوڑیے، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیجیے۔سیرت محمدی صلی الله عليه وسلم سے اپنے دامن کو بھر لیجیے۔ان ہی سے بہتر نتائج رونماہوں گے۔ آپ کی عظمت اور آپ کے وقار کا حصول بے داغ سیرت وکردار اور محنت شاقہ ہی سےممکن ہیے۔

“اے اللہ !ہمیں علم سے مالا مال کیجیے اور برد باری میں زینت دیجیے، تقوی اور پرہیزگاری سے آراستہ کیجیے اور صحت و آفیت سے نوازیے۔”

ہمت کی جولانی ہیے

تو پتھر بھی پھر پانی ہیے

پھر رجھ کو کیا حیرانی ہیے

کرڈال جو من میں ٹھانی ہیے

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتاہیے

پھر دیکھ خدا کیا کرتاہیے

از: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری