6 تا 8 لوک سبھا حلقوں پر نظر، فرقہ پرست طاقتوں کو روکنا صرف کانگریس سے ممکن، کانگریس اور بی جے پی میں اصل مقابلہ
حیدرآباد ۔ 19 ۔ اپریل (سیاست نیوز) تلنگانہ میں لوک سبھا کی 17 نشستوں کے لئے پرچہ نامزدگی کے ادخال کے آغاز کے ساتھ ہی انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ اہم سیاسی پارٹیاں اپنے طئے شدہ ووٹ بینکس کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کرچکی ہے۔ تلنگانہ میں کمزور طبقات اور اقلیتوں کی آبادی تقریباً 85 فیصد ہے لیکن اہم طبقات کے ووٹ پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہیں جس کے نتیجہ میں کوئی بھی پارٹی یہ دعویٰ کرنے کے موقف میں نہیں ہے کہ فلاں طبقہ نے صد فیصد تائید کی ہے ۔ ایس سی ، ایس ٹی اور بی سی طبقات کی تائید حاصل کرنے کیلئے کانگریس ، بی آر ایس اور بی جے پی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی تائید سے صرف کانگریس اور بی آر ایس کو دلچسپی ہے جبکہ بی جے پی کو یقین ہے کہ اسے مسلمانوں کے ووٹ حاصل نہیں ہوں گے ، لہذا وہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ کسی بھی پارٹی کی کوشش رہتی ہے کہ ہر طبقہ کی تائید حاصل ہو۔ تلنگانہ میں قدم جمانے کیلئے بی جے پی اور سنگھ پریوار کی منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کا ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق بی جے پی نے دیہی علاقوں میں بعض نام نہاد مسلم تنظیموں اور افراد کے ذریعہ اقلیتوں کو بی آر ایس کی تائید کے حق میں راضی کرنے کی مساعی شروع کی ہے۔ ریاست کی تازہ ترین صورتحال میں مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی امیدواروں کو کامیابی کیلئے جو بھی اکثریت حاصل ہوگی وہ مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم کا نتیجہ رہے گی ۔ اسمبلی چناؤ میں مسلمانوں نے بیشتر حلقوں میں کانگریس کی تائید کی تھی جبکہ شہری علاقوں میں مسلم رائے دہندوں کا فیصلہ منقسم ہوگیا۔ اسمبلی نتائج کی بنیاد پر بی جے پی نے بعض اقلیتی اداروں و تنظیموں سے ساز باز کرتے ہوئے مسلمانوں میں مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بی جے پی دو رخی پالیسی اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے ووٹ کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کرے گی ۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا کرتے ہوئے مسلم رائے دہندوں کو ووٹنگ سے دور کیا Qجائے گا تو دوسری طرف نام نہاد مسلم تنظیموں کے ذریعہ 8 لوک سبھا حلقوں میں ووٹ کی تقسیم کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے ۔ بی آر ایس قائدین اپنی 10 سالہ حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں اقلیتی رائے دہندوں کی تائید حاصل ہوگی جبکہ برسر اقتدار کانگریس پارٹی نے مسلم ووٹ بینک پر اپنی دعویداری پیش کی ہے ۔ تلنگانہ میں 10 لوک سبھا حلقوں پر کامیابی کا نشانہ مقرر کرنے والی بی جے پی کو امید ہے کہ مسلم ووٹ کی تقسیم سے تلنگانہ میں اس کے موجودہ ارکان کی تعداد 4 سے بڑھ کر کم از کم 8 ہوسکتی ہے۔ قومی سطح پر سروے رپورٹس میں تلنگانہ میں بی جے پی کو کانگریس کے بعد دوسرے نمبر پر دکھایا گیا ہے ۔ تلنگانہ میں اصل مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے اور ایسے میں مسلم رائے دہندوں کی کوئی بھی غلطی بی جے پی کی نشستوں میں اضافہ میں مددگار ثابت ہوگی۔ مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کیلئے سیاسی ، مذہبی اور سماجی سطح پر منظم شعور بیداری کی ضرورت ہے تاکہ رائے دہندوں کو نفرت کی سیاست کرنے والوں سے آگاہی ہو۔ مسلمانوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ تلنگانہ میں امن و امان ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کا تحفظ ضروری ہے کیونکہ ہندوستان میں تلنگانہ وہ واحد ریاست ہے جسے فرقہ واریت اور نفرت سے پاک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کے حامل تلنگانہ ریاست میں نفرت کا زہر گھولنے کیلئے بی جے پی اور سنگھ پریوار سرگرم ہوچکا ہے۔ بی آر ایس کے سیکولر ہونے پر شبہ نہیں کیا جاسکتا لیکن موجودہ حالات میں مسلمانوں کو متحدہ طور پر رائے دہی کرنی ہوگی کیونکہ اصل مقابلہ فرقہ پرست طاقتوں سے ہے ۔ اب جبکہ تلنگانہ میں 13 مئی کو رائے دہی مقرر ہے، لہذا مسلمانوں کی تمام تنظیموں کو اپنی ملی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہوئے مسلمانوں میں مہم چلانی چاہئے کہ ایک طرف ووٹ کے استعمال میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو دوسری طرف سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے امیدواروں کے حق میں متحدہ ووٹنگ کریں جو بی جے پی کو کامیابی سے روک سکتے ہیں۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے کئے گئے تازہ ترین سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ تلنگانہ میں مسلمانوں کی اکثریت نے برسر اقتدار پارٹی کی تائید کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران ریونت ریڈی حکومت کی کارکردگی سے اقلیتیں مطمئن ہیں۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ اگر مسلم رائے دہندے بی آر ایس کے بجائے کانگریس کا متحدہ طور پر ساتھ دیں گے تو سکندرآباد ، کریم نگر ، محبوب نگر ، میدک ، نظام آباد ، ظہیر آباد اور عادل آباد میں کامیابی سے کوئی روک نہیں سکتا۔ سروے میں اسمبلی چناؤ کے مقابلہ لوک سبھا چناؤ میں مسلمانوں کے ووٹنگ فیصد میں اضافہ کی پیش قیاسی کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرتے ہوئے 6 تا 8 نشستوں پر کامیابی کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کیلئے شہری اور دیہی علاقوں کے مسلم رائے دہندوں کو کانگریس کی تائید کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ مسلمان ایسے نام نہاد قائدین اور تنظیموں سے ہوشیار رہیں جو ہمدردی کے بھیس میں مسلمانوں کو منقسم کرنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ آر ایس ایس کی تنظیموں سے متعلق راشٹریہ مسلم منچ اور بی جے پی سے وابستہ اقلیتی قائدین اس سلسلہ میں مسلم علاقوں کا رخ کرسکتے ہیں۔ اسی دوران چیف منسٹر ریونت ریڈی نے مختلف طبقات کے نمائندوں کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہوئے ووٹ کی تقسیم روکنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دو سیکولر طاقتوں کے ٹکراؤ میں فرقہ پرست بی جے پی کا فائدہ ہوسکتا ہے ۔ تازہ ترین سروے کے مطابق 10 سال تک برسر اقتدار رہنے والی بی آر ایس کا 17 لوک سبھا حلقوں میں بمشکل 2 حلقوں میں موقف کسی قدر مستحکم ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بی جے پی کو شکست دینے کے لئے مسلمان متحدہ طور پر کانگریس کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں۔ 1
بی جے پی کے نشانہ پر
سکندرآباد
نظام آباد
کریم نگر
عادل آباد
محبوب نگر
چیوڑلہ
مسلم ووٹ کا متحدہ استعمال ضروری