روش کمار
مسوچیٹس میں ہر طالب علم کو بیالوجی پڑھنا پڑتا ہے۔ فزکس کیمسٹری اور ریاضی پڑھنا پڑتا ہے اور کمپیوٹر سائنس بھی پڑھنا پڑتا ہے۔ دنیا کی اس نمبر ون یونیورسٹی میں مختلف ملکوں کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کا برین ریسرچ سنٹر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے آپ کو بتادیں کہ برین ریسرچ سنٹر کے لباب میں فی الوقت 9 ملکوں کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ جہاں تک ویژن کا سوال ہے یہ آنکھ سے شروع ہوتی ہے مگر برین میں پیدا ہوتی ہے۔ MIT کا بجٹ تقریباً 20-25 ارب ڈالرس ہے ہا روڈ کا40-50 ارب ڈالرس ہے اور یہ غلط ہیکہ حکومتوں کو ریسرچ کے لیء مالی مدد کرنی چاہئے حالانکہ انڈسٹری کو اچھی طرح معلوم ہیکہ ہمیں کیا چاہئے۔ MIT برین ریسرچ سنٹر کی لیاب میں انتہائی قیمتی مشینس ہیں جن کی قیمت ایک ملین ڈالرس بھی ہے۔ MIT کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ ان کے برین ریسرچ سنٹر میں جو تحقیق ہو رہی ہیں اس سے امید ہیکہ ایک دن Autismi جیسی بیماری کا علاج بھی دریافت کرلیا جائے گا جس سے ایک دنیا کو سکون ملے گا راحت ملے گی۔ MIT کے اندرونی حصہ کو اگر آپ دیکھیں تو اس کے ڈیزائن یا فن تعمیر کو دیکھ کر کوئی بھی حیرت میں ضرور ڈوب جائے گا چارلس کوریا کا اس میں اہم کردار ہے۔ بوسٹن میں کھلی عمارت نہیں بنائی جاسکتی تاہم کورین نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے MIT کے پروفیسروں اور ماہرین کے ساتھ مل کر ایسی عمارت تعمیر کی کہ اس پر برفباری اور شدید سردی کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ خاص طور پر نیورو سائنس کی جو عمارت ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔اس سنٹر میں انسانی برین کے ساتھ ساتھ حیوانوں کے برین پر بھی تحقیق ہوتی ہے۔ اس بات پر بہت زیادہ تحقیق ہوتی ہے کہ برین کا نیورانس سے کیا تعلق ہے کیا کام ہے اور دماغ میں نیورانس کی کیا اہمیت ہے۔ یہ دراصل برین سائنس کے بنیادی میکانزم ہے اس کے لئے ہمیں جانوروں کے BRAINS یا دماغوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس طرح کی تحقیق کے لئے سب سے اہم جانور چوہا ہے کیونکہ چوہا کے ماڈل سسٹم بہت اہم بن گئے ہیں خاص کر نیورو سائنس کے لئے ، اس کے ساتھ بندر بھی نیورو سائنس کی تحقیق کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان سب کے لئے NIT سے MIT سے اجازت لینی پڑتی ہے چوہوں اور بندروں پر تحقیق کو حق بجانب اور منصفانہ قرار دینے کے لئے دلائل دینے پڑتے ہیں کیونکہ تحقیق کے دوران جو تجربات ہوتے ہیں چوہوں اور بندروں کو اس کے منفی اثرات وغیرہ سے گذرنا پڑتا ہے۔ اسی پروفیسر کے مطابق برین ریسرچ سنٹر کی ساتویں منزل جانوروں کے لئے مختص ہے۔ ان جانوروں کو باہر سے لایا جاتا ہے اور اسے بناتے ہیں۔ Genes کی اس میں بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے انسان چوہے بندر تمام میں 20 ہزار Genes ہوتے ہیں ہمارے Genes میں ان Genes کے کوڈس ہوتے ہیں اور Genes کے کوڈس کے درمیان ایکولیٹرس ریجنس پائے جاتے ہیں جیسے کہ Genes بناتے ہیں پروٹینس جیسے کہ جسم کے ہر خلیہ میں ہمارے بدن کے برین یا دماغ میں 80 ارب خلئے ہوتے ہیں، پورے جسم میں کھربوں خلئے ہوتے ہیں یہ سب خلئے بنتے ہیں ایک فرٹیلائزڈ Egg سے تقسیم پر تقسیم کرکے اور پھر بچے پیدا ہوتے ہیں انسان کے اور چوہوں کے اور پھر وہ بڑے ہوتے ہیں تو ان میں یہ 20 ہزار Genes سے یہ بنتا ہے اور ایک Genes کو ہم تبدیل کرسکتے ہیں یہ اپنے آپ سے بھی بدل جاتا ہے اور سائنسداں بھی اسے بدل سکتے ہیں۔ ایک خلیہ سے دو دو سے چار چار سے 8 اور اس طرح خلیوں کی جب تقسیم ہوتی ہے تو اس کے لئے نقل کرنی پڑتی ہے تو اس نقل میں Genes کبھی کبھی بدل جاتے ہیں اور اس طریقہ سے BRAIN Disorder ہوتے ہیں یہ Copying میں کبھی بھی جین بدل جاتے ہیں اور ماں سے اور باپ سے Genes کی ایک ایک کاپی ملتی ہے تو ان میں کبھی کبھی فطرت کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو Genes میں میوٹیشن ہو جاتا ہے اور جیسے ہمارے نیورانس ہیں ان کے افعال انجام دینے کے لئے تقریباً 10 ہزار Genes چاہئے کیونکہ نیورانس میں بہت زیادہ پروٹینس بنائے جاتے ہیں۔ خلیہ ایک بہت پیچیدہ مشنری ہے ایک خلیہ کو دوسرے خلیہ سے جو چیز جوڑتی ہے اسے نیورانس کہتے ہیں اور اس طریقہ سے انفارمیشن ہمارے برین میں پہنچتی ہے۔ Process ہوتا ہے اسے ہم Cognation کہتے ہیں یہ وہ کیفیت ہے جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کیسے برین، مائنڈ کی تخلیق کرتا ہے اور دس ہزار Genes بناتا ہے نیورانس اور نیورائنس جوڑتے ہیں ہزاروں نیورائنس کے ساتھ MIT دنیا میں ٹکنالوجی کی بہت بڑی یونیورسٹی ہے۔ آپ کو پھر بتادیں کہ MIT کی اس عمارت کو بنانے والے چارلس کوریا کا خواب اس عمارت کے ذریعہ شرمندہ تعبیر ہوا۔ ان کا تعلق بھارت سے رہا ہے اور یہ چارلس کوریا کو اس وقت کنٹراکٹ ملا تھا جب ان کی کمپنی بمبئی میں کام کرتی تھی۔ MIT والوں کو پتہ تھا کہ بمبئی میں کوئی چارلس کوریا ہے ان سے ایک عمارت تعمیر کروانی ہے چنانچہ اس عمارت میں انہوں نے جو کھلاپن دیا ہے اس کا ایک فائدہ تو آپ نے دیکھا کہ اس جگہ کئی سال کئی دہوں کے بعد بھی ایک کھلاپن بنا ہوا ہے۔ یہ اس کا ایک نتیجہ یہ ہیکہ کوئی پروفیسر آپ سے اچانک ملتے ہیں پہلی بار اور وہ اپنے کام کے بارے میں اتنا ڈوب کر بتانا شروع کرتے ہیں کہ آپ کے لئے پیغام یہ ہیکہ آپ جو بھی کام کریں اس سے پیار کیجئے اس کے بارے میں جب آپ بتائیں اس کے بارے میں آپ سوچیں تو ٹھیک اسی طرح سے پیش آئیں جس طرح پروفیسر مگانگ پیش کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ریسرچ میں چوہے کو اس نے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ہم چوہے کی جنیات Genetics کو فوری بدل سکتے ہیں آسانی سے چوہے کو ہم ایک Gene میوٹیشن اور دوسرا جین میوٹیٹ کرسکتے ہیں۔ چنانچہ آدمیوں میں جب دماغ میں جو نقائص پیدا ہوتے ہیں ہم اس بات کا پتہ چلا رہے ہیں کہ اس میں ایک Gene یا دوسری Gene یا دس Gene کبھی کبھی Mutateہو جاتی ہیں تو ہم کیسے سمجھیں گے آدمی کے ساتھ بات کرسکتے اس کی برین امیجنگ کرسکتے ہیں اگر ہم چوہا بنا سکیں جس میں وہی Gene میوٹنٹ میں تو پھر ہم اس کی اسٹڈی کرسکتے ہیں۔ جہاں تک MIT کا سوال ہے وہ تعلیم تحقیق اور آختراعات کے ذریعہ ایک بہتر دنیا بنانے کی خواہاں ہے۔ اس یونیورسٹی نے ہمیشہ قابل ترین ذہنوں کا خیرمقدم کیا ہے اور یہ نہیں دیکھا کہ ان لوگوں کا دنیا کے کسی خطہ اور کس ملک سے تعلق ہے۔ دراصل یہ یونیورسٹی امریکہ کے صنعتی انقلاب میں تیزی پیدا کرنے کے مقصد سے قائم کی گئی تھی چنانچہ اس یونیورسٹی کے گریجویٹس نے بنیادی ٹکنالوجیز کی ایجاد کی نئی صنعتوں کا آغاز کیا اور پھر روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کئے۔ یہ یونیورسٹی ایک مقناطیس کی طرح ہے جو دنیا بھر سے باصلاحیت لوگوں کو اپنی جانب کھینچ لاتی ہے اس کی خوبی یہ ہیکہ فنڈز پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہوتا جیسا کہ ہمارے ملک میں ہوتا ہے۔ اگر ریسرچ کے لئے ماہرین کو پوری آزادی دی جائے تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ یونیورسٹی 168 ایکڑ اراضی پر محیط ہے صرف کھیل کود کے میدان 26 ایکڑ اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ MIT سے 100 نوبل لاریٹس، 60 نیشنل میڈل آف سائنس حاصل کرنے والے 30 نیشنل میڈل آف ٹکنالوجی اینڈ انوویشن حاصل کرنے والے 81 مائک آرتھر فیلوس اور 16 ایسی شخصیتیں نکلی ہیں جنہوں نے اے ایم ٹیورنگ ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ اس میں طلبہ کی تعداد 11858 پروفیسروں کی تعداد 1080 اور ملازمین بشمول فیکلٹی ارکان کی تعداد 16327 ہے۔