ملزم کی آج ویڈیو لنک کے ذریعہ عدالت میں دوسری بار پیشی

,

   

کرائسٹ چرچ قتل عام
ملزم آکلینڈ کی ہائی سیکوریٹی والی جیل میں قید l میڈیا کو عدالتی کارروائی کے کوریج کی اجازت نہیں
ویلنگٹن ۔ 4 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں جس جنونی دہشت گرد نے 50 مسلمانوں کو شہید کیا تھا، اسے اب 50 لوگوں کے قتل کے مقدمہ کا سامنا کرنا ہوگا جبکہ 39 اقدام قتل کے الزامات کا بھی عدالت میں دوسری بار پیشی کے دوران سامنا کرنا ہے۔ نیوزی لینڈ پولیس کے مطابق قبل ازیں قاتل ٹیرنیٹ کے خلاف صرف قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ قاتل ٹیرنیٹ ویڈیو لنک کے ذریعہ عدالت میں پیش ہوگا۔ جمعہ کو عدالت میں مختصر سماعت ہوگی۔ یاد رہیکہ دو مساجد میں 50 افراد کے شہید ہونے کے علاوہ دیگر 50 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ ٹیرنیٹ کے خلاف مزید معاملات بھی درج کئے جاسکتے ہیں لیکن چونکہ یہ معاملہ اب عدالت میں زیردوراں ہے اس لئے مزید معاملات درج نہیں کئے گئے ہیں۔ ٹیرنیٹ کی عدالت میں پہلی پیشی اس وقت ہوئی تھی جب حملہ کے دوسرے ہی روز اسے گرفتار کرکے کرائسٹ چرچ ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ فرد جرم کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیرنیٹ کے مقدمہ کو ہائیکورٹ منتقل کیا گیا چونکہ وہ آکلینڈ کی ایک ہائی سیکوریٹی والی جیل میں قید ہے لہٰذا عدالت میں حاضری ویڈیو لنک کے ذریعہ کی جائے گی۔ نیوزی لینڈ کے قوانین کے مطابق عدالتی کارروائی کے دوران میڈیا فوٹوگرافرس کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی عدالتی کارروائی کی کوئی رپورٹنگ کی جائے گی۔ اس قانون کے اطلاق کا اصل مقصد یہ ہیکہ عدالتی کارروائی کی سماعت سے قبل رپورٹنگ اور تصاویر کہیں جیوری کے ارکان کے فیصلے پر منفی طور پر اثرانداز نہ ہوجائے۔ اسی دوران جج کیمرون مندر نے کہا کہ مختصر سماعت صرف ملزم کی قانونی پیروی پر مرکوز ہوگی کیونکہ ملزم ٹیرنیٹ نے قبل ازیں مشہور وکیل رچرڈ پیٹرس کی خدمات حاصل کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ وہ خود (ملزم) اپنے مقدمہ کی پیروی کرے گا۔ اس معاملہ میں اب مختلف گوشوں میں یہ شک و شبہات کئے جارہے ہیں کہ عدالت میں اپنے دفاع کے دوران ملزم ٹیرنیٹ اپنی سفیدفام قومی نظریات کو پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔ جج نے یہ بھی کہا کہ انہیں تقریباً 25 میڈیا آرگنائزیشنس سے عدالتی کارروائی کی تصاویر، ویڈیو اور آڈیوز لینے کی درخواست کی گئی تھی لیکن ان تمام درخواستوں کو مسترد کردیا گیا ہے حالانکہ رپورٹرس کو وہاں موجود رہتے ہوئے اپنے انداز میں ’’نوٹس‘‘ لکھنے کی اجازت ہوگی لیکن اس پر بھی تحدیدات کا اطلاق ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ میڈیا کو ملزم ٹیرنیٹ کے ’’پکزیل‘‘ والی امیجس استعمال کرنے کی اجازت ہوگی کیونکہ ’’پکزیل‘‘ والی امیجس میں ملزم کے چہرہ کو غیرواضح کردیا گیا ہے۔ دریں اثناء ریٹائرڈ لاء پراسیکیوٹر بل ہاج نے ایک انتہائی اہم نکتہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم کے چہرے کو غیر واضح کرنے کی وجہ یہ ہیکہ استغاثہ کو شاید ایسے کسی گواہ کو پیش کرنا پڑے جو یہ بخوبی بتا سکے کہ اس نے حملہ آور ٹیرنیٹ کو مسجد میں فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا ناکہ میڈیا کی بنائی گئی کہانیوں کی بنیاد پر بیان دینا پڑے۔ مسٹر ہاج نے مزید کہا کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا آج بھی منصفانہ قانونی کارروائی یا عدلیہ کی قدیم طرز پر سرگرمیاں چلانے میں اعتقاد رکھتے ہیں تاہم آج کے اس عصری دور میں لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ کسی بھی واقعہ ؍ سانحہ ؍ حادثہ سے متعلق بہتر طور پر معلومات حاصل کرل