ملک بھر میں پھیلایا گیا نفرت کا ماحول ایوان تک پہنچ گیا

   

رمیش بدھوڑی کے طرز عمل سے منتخب کرنے والوں کو بھی شرمندگی، کنور دانش سے نمائندہ سیاست کا انٹرویو

حیدرآباد۔یکم۔اکٹوبر(سیاست نیوز) برائی کے خاتمہ کے لئے کئی لوگوں کو قربانی دینی پڑتی ہے اور کئی زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں لیکن برائی ‘گھمنڈ اور تکبر کا خاتمہ یقینی طور پر ہوتا ہے۔ ایوان میں مجھے منتخب کرتے ہوئے روانہ کرنے والوں کا نمائندہ ہوں اور اگر کسی قسم کی جہالت مجھ سے سرزد ہوتی اور میں رمیش بدھوڑی کا اس کے انداز میں جواب دیتا تو مجھے منتخب کرنے والوں کی نہ صرف توہین ہوتی بلکہ جس طرح کے جملوں سے وہ مسلم رکن پارلیمنٹ کی تذلیل کر رہے تھے انہیں درست قرار دیا جانے لگتا اسی لئے میں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اخلاق کو پیش کیا ۔ جناب کنور دانش علی رکن پارلیمنٹ حلقہ پارلیمان امروہہ نے نمائندہ سیاست سے خصوصی ملاقات کے دوران یہ بات کہی اور کہا کہ رمیش بدھوڑی کی زبان اور ا ن کے طرز عمل کے نتیجہ میں انہیں منتخب کرنے والے بھی شرمندگی محسوس کر رہے ہیں اگر ان کے جواب میں اگر میں بھی اسی طرح کی جہالت کا جواب دیتا تو معاملہ نہ صرف بگڑ جاتا بلکہ ملک میں جو ماحول بن رہا ہے اس ماحول کو خراب کرتے ہوئے دوبارہ مذہب کی بنیاد پر عوام کو منقسم کرنے کے وہ مرتکب بن جاتے ۔ کنوردانش علی نے اس واقعہ کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران اشکبار ہونے کے متعلق کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے آنسو انہیں دی گئی گالی پر نہیں نکلے بلکہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران انہیں اس بات کا احسا س ہورہاتھا کہ ملک کے گلی کوچوں اور بازاروں میں عام مسلمان کس طرح کے حالات کا سامنا کررہا ہے کیونکہ ملک بھر میں جو نفرت کا بازارگرمایا گیا ہے وہ نفرت اب ایوان میں پہنچ چکی ہے اور دنیا کے آگے ہندستانی پارلیمنٹ کو شرمسار کیاگیا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں جذباتی ردعمل ظاہر نہ کئے جانے پر بعض گوشوں سے تنقید کا سامنا ہے لیکن وہ اپنی قوم اور ملت کے لئے ہر تنقید برداشت کرنے کے لئے تیارہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کا کوئی اقدام ملک بھر کے مسلمانوں کو حاشیہ پر لیجانے کا کام کر ے۔ کنور دانش علی نے کہا کہ مسلمانوں کو جذبات کے بجائے ہوش اور دانشمندی سے کام لیتے ہوئے دیگر ابنائے وطن کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور انہوں نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی کوشش کی جس کے نتیجہ میں آج بی جے پی کے بھی بعض ارکان پارلیمان کو ان سے ہمدردی ہے ۔ انہوں نے رمیش بدھوڑی کے خلاف کاروائی کے سلسلہ میں وزیر اعظم اور اسپیکر کوروانہ کردہ مکتوب کے متعلق کہا کہ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ پر ارباب مجاز کو متوجہ کروائیں اور اگر اس پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے تو وہ مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ رکن پارلیمنٹ امروہہ نے بتایا کہ ملک میں جو ماحول تیار ہورہا ہے اور جس طرح سے عوام مسلم دشمن ذہنیت کو محسوس کرتے ہوئے اب متحد ہونے لگے ہیں وہ ایک ناقابل یقین حقیقت بن چکا ہے اور برائی کا خاتمہ ہونے جا رہاہے جس کے نتیجہ میں یہ اپنے چہروں سے نقاب اتارتے ہوئے ایوان میں بھی اس طرح کی شدت پسندی پر اتر آئے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جذباتی جواب دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن اس طرح کی گالیوں پر صبر و تحمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کردار کو پیش کرنا اور ملک کو مذہبی خطوط پر منقسم ہونے سے محفوظ رکھنا انہیں درست لگا اور انہوں نے وہی کیا۔ انہوں نے کہا کہ جذباتی جواب کے ذریعہ کچھ لوگوں کی ’’ڈارلنگ‘‘ بننا اور قوم کی تباہی کا سامان تیار کرنا نہیں چاہتے بلکہ وہ قوم کی تعمیر کے علاوہ اس کے تحفظ و ترقی کے لئے ایوان میں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں ان کی کوئی بھی حرکت ان کی قوم کی بدنامی کا سبب بن سکتی تھی اسی لئے انہوں نے نفرت کے بجائے محبت کا پیام دیا ہے۔ راہول گاندھی کی ان سے فوری ملاقات اور ان کی کانگریس میں شمولیت کی قیاس آرائیوں کے سلسلہ میں کئے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ راہول گاندھی ان کے گھر پہنچ کر ان سے ملاقات کرتے ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ ان کے ایک ساتھی رکن پارلیمنٹ پر فرقہ پرستانہ حملہ ایوان میں ہوا ہے اسی لئے وہ ان کے جذبات اور احساسات کی قدرکرتے ہیں۔ انہوں نے ملک کے سیاسی حالات کی تبدیلی کے اشارے دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے 9 برسوں کے دوران ہندستانی شہری ’’گھٹن ‘‘ محسوس کر رہا ہے اور کئی ایک مسائل سے دوچار ہے لیکن اب تک انہیں کوئی متبادل نظر نہیں آرہا تھا اب جو حالات پیدا ہورہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت کے خلاف عوام کی برہمی اور ناراضگی سے برسراقتدار جماعت بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے اسی لئے وہ بہر صورت ملک بھر میں ہندو ۔مسلم منافرت کے ذریعہ حالات کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جناب کنور دانش علی نے کہا کہ وہ بھی اپنے سینے میں ایک دل رکھتے ہیں اور ان کے بھی جذبات ہیں لیکن ان پر اس وقت قابو پانا انتہائی اہمیت کا حامل تھا اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اس وقت قوت برداشت عطا کی جس کے نتیجہ میں آج دنیا بھر میں رمیش بدھوڑی اور ان کے حامیوں کی سرزنش ہورہی ہے اور مسلمانوں پر جاری حملوں کے متعلق ہمدردی کی لہر پیدا ہونے لگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی نعروں ‘ تقاریر کے علاوہ جذباتی فیصلوں سے مذہبی طور پر قوم کو تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی تعمیر ممکن نہیں ہوتی۔