ملک میں شدید احتجاج پر لبنانی وزیراعظم کابینہ سمیت مستعفی

,

   

بیروت : بیروت میں گزشتہ ہفتے تباہ کن دھماکے اور حکمران طبقے کیخلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کے بعد لبنان کے وزیر اعظم حسن دیب اور اُن کی کابینہ نے استعفیٰ دے دیا۔ ’اے پی‘ کے مطابق وزیر صحت حماد حسن نے کہا کہ وزیر اعظم حسن دیب اور ان کی کابینہ کے گروپ نے استعفیٰ پیش کرنے کیلئے صدارتی محل کا رخ کرلیا۔دو روز قبل لبنان کے وزیر اعظم حسن دیب نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کو بحران سے نکلنے کا واحد راستہ انتخاب ہے۔اس دوران حکومت مخالف مظاہروں کے دوسرے دن لبنانی پولیس نے بیروت میں پارلیمنٹ کے قریب سڑک بند کرنے اور پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کے لئے آنسو گیس کے شل برسائے ۔ بیروت میں 2 ہزار ٹن سے زائد امونیم نائٹریٹ کے دھماکے میں 168 افراد ہلاک اور 6 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں جس کے بعد عوام کا حکومت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔ وزیر برائے تعمیرات عامہ مشیل نجر نے اس توقع کا اظہار کیا کہ میں امید کرتا ہوں کہ نگراں حکومت کی مدت طویل نہیں ہوگی کیونکہ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا، امید ہے کہ جلد ہی ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ایک موثر حکومت ہی ہمیں بحران سے نکال سکتی ہے۔ دوسری جانب لبنانی عدالت کے جج نے بیروت میں تباہ کن دھماکے سے متعلق سکیورٹی ایجنسیوں کے سربراہوں سے پوچھ گچھ شروع کردی۔ عہدے سے مستعفی جج غسان الخوری نے سرکاری سکیورٹی کے سربراہ میجر جنرل ٹونی سیلیبا سے پوچھ گچھ کی۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ سے قبل 4 وزرا استعفیٰ دے چکے تھے۔لبنان کی وزیر اطلاعات منال عبدالصمد نے عوام سے معافی مانگنے کے بعد اپنا استعفیٰ دیدیا تھا، وہ کابینہ کی پہلی وزیر تھی جو مستعفی ہوئیں۔بعدازاں وزیر اطلاعات اور ماحولیات کے بعد وزیر انصاف بھی مستعفی ہوگئی تھیں۔وزیر انصاف میری کلاڈ نجم نے کابینہ سے استعفیٰ دیا تھا۔ دو روزقبل بیروت میں مشتعل مظاہرین نے وزارت خارجہ اور وزارت اقتصادیات کے دفاتر پر دھاوا بول دیا تھا۔مظاہرین نے وسطی بیروت میں پارلیمنٹ کی عمارت تک جانے کی کوشش کی اور اس دوران مظاہرین اور پولیس کے مابین کشیدگی بھی دیکھی گئی۔مارونائٹ چرچ کے سربراہ نے سانحے کو ’انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا تھا۔