مودی اور ہندوتوا نظریہ انتخابات جیتنے کافی نہیں : آر ایس ایس

,

   

٭ مقامی سطح پر طاقتور قیادت اور موثر حکمرانی اہمیت کی حامل
٭ کرناٹک نتائج نے 2024 کیلئے اپوزیشن کے حوصلے بلند کردئے
٭ ریاستی وزراء کے خلاف عوامی ناراضگی بی جے پی کیلئے باعث تشویش
٭ کانگریس نے انتخابی مہم کو مقامی مسائل تک مرکوز رکھا ۔ آرگنائزر کا اداریہ

سید خلیل قادری
حیدرآباد 6 جون وزیر اعظم نریندر مودی کا شخصی کرشمہ اور ہندوتوا کو نظریاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اب بی جے پی کیلئے انتخابات میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہوگا ۔ آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر نے اس رائے کا اظہار کیا ہے ۔ آرگنائزر میں بی جے پی کرناٹک کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں شکست پر ایک تبصرہ پیش کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی گئی ہے ۔ 23 مئی کو شائع کئے گئے اس تبصرے میں کہا گیا ہے کہ علاقائی سطح پر ایک طاقتور اور مستحکم قیادت اور موثر کارکردگی کے بغیر وزیر اعظم نریندر مودی کے ذاتی کرشمہ اور ہندوتوا کو نظریاتی ہتھیار بناکر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ مودی کی مقبولیت اور ہندوتوا نظریات انتخابات جیتنے کیلئے کافی نہیں ہیں۔ کہا گیا ہے کہ مثبت حقیقی نظریہ اور قیادت ہی بی جے پی کیلئے حقیقی اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں جب ریاستی سطح پر حکمرانی کی بات ہو ۔ ریاستی سطح پر مقامی قیادت اور موثر کارکردگی بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ آر ایس ایس ترجمان نے اپنے تبصرے میں بی جے پی کو آئندہ سال کے عام انتخابات سے قبل مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اثر 2024 کے عام انتخابات تک برقرار رکھنا ایک دلیرانہ کوشش ہوگی تاہم یہ ضرور ہے کہ اس کامیابی نے اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے ضرور بلند کردئے ہیں اور یہ بات بی جے پی کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اخبار نے اپنے اداریہ میں کہا ہے کہ ریاستی حکومت کے خلاف کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ریاست کے رائے دہندوں میں حکومت کے خلاف جو ناراضگی تھی اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہم ودی کی عوامی مقبولیت بھی اسے روکنے میں کامیاب نہیںہوسکی ۔ بی جے پی کو اسمبلی انتخابات میں اپنی حکومت کے خلاف کرپشن کے الزامات کا دفاع کرنا پڑا ہے ۔ ریاستی وزراء کے خلاف عوام کی جو ناراضگی تھی اور جو لہر تھی وہ بی جے پی کیلئے تشویش کی بات ہوسکتی ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کی بسواراج بومائی حکومت کے 14 وزراء بشمول بڑے قائدین جیسے وی سومنا ‘ ڈاکٹر کے سدھاکر ‘ بی سری راملو ‘ گوند کرجول ‘ ایم نیرانی ‘ جے سی مدھو سوامی ‘ بی سی پاٹل ‘ ایم ٹی بی ناگراج ‘ کے سی نارائنا گوڑا اور بی سی ناگیش کو بھی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ آرگنائزر نے تحریر کیا ہے کہ مقامی سطح پر مرکوز انتخابی مہم نے کانگریس کیلئے حالات سازگار کئے ہیں۔ دعوی کیا گیا ہے جب قومی سطح کے قائدین انتخابی مہم میں کم سے کم رول ادا کرتے ہیں کانگریس کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ انتخابی مہم کو مقامی سطح پر رکھا جاتا ہے ۔ کانگریس پر طنز کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خاندانی اثر والی پارٹی نے ریاستی سطح پر قائدین میں اتحاد کو اجاگر کیا تھا جس کی وجہ سے اسے پانچ فیصد اضافی ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اخبار مذکور نے گذشتہ نو برسوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی کامیابیوں کی ستائش کی ہے اور کہا کہ 2014 میں ملک کے عوام کی اکثریت نے جمہوریت میں اعتماد کھو دیا تھا ۔ وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت نے عوامی توقعات پر پورا اترنے کی مثبت کوشش کی ہے اور کئی محاذوں پر نشانوں کی تکمیل کی ۔ اخبار نے نئی پارلیمنٹ عمارت کی ستائش کی اور کہا کہ یہ جمہوریت کا نیا مندر ہے ۔