مودی جی تعریف کے بھوکے وزیراعظم

   

پون کھیرا
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بار بار یہ کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ انہوں نے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کروائی اور اس کیلئے دونوں پڑوسی ملکوں کو تجارت نہ کرنے کی دھمکی دی ۔ اگر وہ ایسے نہیں کرتے تو دونوں جوہری طاقتوں میں یقیناً جوہری جنگ چھڑ جاتی۔ ٹرمپ نے ہند۔پاک جنگ بندی کے بعد شائد تقریباً 18 ویں مرتبہ یہ دعویٰ کیا ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وزیراعظم مودی امریکی صدر کے دعوؤں کا جواب دینے کی بجائے مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ہاں اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی کی تھوڑی سی تعریف و ستائش کیجئے ، وہ ہندوستانی مفادات کو خطرہ میں ڈالدیں گے ۔ اس ضمن میں ہم بے شمار مثالیں پیش کرسکتے ہیں۔ چین سے لے کر امریکہ تک ساری دنیا بخوبی واقف ہوگئی ہے کہ چھوٹی سے تعریف با الفاظ دیگر جھوٹی تعریف ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ صرف مودی کی تھوڑی سی تعریف و ستائش کرنے پر وہ ہندوستان کے مفادات کو بھی خطرہ میں ڈال دیں گے ۔ حد تو یہ ہے کہ جھوٹی تعریف سے خوش ہوکر انہوں نے چین کو کلین چٹ دی اور یہ کہا کہ کسی نے ہماری ایک انچ زمین پر قبصہ نہیں کیا (بلکہ خود بی جے پی لیڈر اور سابق رکن راجیہ سبھا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے ببانگ دہل یہ کہا ہے کہ چین نے ہماری ہزاروں مربع کیلو میٹر اراضی پر قبضہ کیا اور اس کی دراندازی کا سلسلہ جاری ہے ۔ فروری 2022 میں خود مملکتی وزیر امور خارجہ وی مرلیدھرن نے لوک سبھا میں بتایا تھا کہ پچھلے 60 برسوں میں چین نے صرف لداخ میں ہندوستان کی 38 ہزار مربع کیلو میٹر علاقہ پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے) واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے مودی جی کے بارے میں صرف اتنا کہا کہ وہ میرے ایک اچھے دوست ہیں، ایک اچھے انسان ہیں ، ایک عظیم شخصیت ہیں حالانکہ ٹرمپ نے ہندوستان ، پاکستان کے درمیان جنگ بندی کروانے کے دعویٰ کو دہراتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ میں نے دونوں ملکوں (ہندوستان اور پاکستان) سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر تم جنگ بندی پر راضی نہ ہوں تو پھر امریکہ آپ دونوں ملکوں کے ساتھ تجارتی معاملت نہیں کرے گا اور میں دونوں ملکوں سے تجارتی معاملت کرنا چاہتا ہوں ۔ ٹرمپ نے جوہری جنگ رکوانے کا بھی کریڈٹ لیا ۔ حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی نے ایرانی صدر مسعود پز شکپان سے بات کی ۔ اگر ایران۔ اسرائیل و امریکہ جنگ کی بات کریں تو جو بات سب سے زیادہ حیران کن اور صدمہ انگیز ہے وہ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کی عجیب و غریب خاموشی ہے ۔ چاہے وہ غزہ میں بے قصور شہریوں پر بمباری ہو یا دوسرے ملکوں میں اسرائیل کی قتل سے متعلق کارروائیاں (اسرائیل دوسرے ملکوں میں چن چن کر سیاسی قائدین حریت پسند شخصیتوں اور جوہری سائنسدانوں کو قتل کر رہا ہے ) ہوں یا حالیہ عرصہ میں ایران پر امریکہ کے فضائی حملے ہو مودی نے ان پر آواز بلند کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کی جبکہ ہندوستان کی یہ روایت رہی ہے کہ اس نے مغربی ایشیاء میں برقراری امن کیلئے تعمیری کردار روا رکھا ہے لیکن اب مودی کی خاموشی سے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ آخر ہندوستان نے علاقہ میں اپنی اخلاقی ذمہ داری سے دستبرداری اختیار کیوں کی ؟ لوگ ان سوالات کے جوابات چاہتے ہیں۔ ایک ایسے وقت جبکہ انسانیت کے خلاف جرائم کا بڑے پیمانہ پر ارتکاب کیا جارہا ہے ، بے قصور انسانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ۔ ان کا قتل عام کیا جارہا ہے ۔ ہندوستان کو اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھانی چاہئے ۔ ہندوستان کو اپنے روایتی دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا اور اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے تھا کہ صحیح لوگوں سے صحیح وقت پر اور صحیح لب و لہجہ میں بات کرے ۔ اگر دیکھا جائے تو مودی حکومت کی خاموشی ہندوستان کو کمزور کرے گی اور عالمی سطح پر اس کی جو شبیہہ ہے اسے متاثر کرے گی ۔ مودی جی کی خاموشی پر صرف ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس نے ہی انگلی نہیں اٹھائی بلکہ کمیونسٹ جماعتوں نے بھی مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بہرحال مودی جی کو بیرونی دوروں میں صدور و سربراہان مملکت اور عالمی رہنما ؤں سے زبردستی بغلگیر ہونے کی بجائے ہندوستان کی اس پالیسی پر عمل کرنا چاہئے جو آزادی کے بعد ہماری حکومتوں نے اپنائی تھی اور خاص طور پر مغربی ایشیاء میں پرامن بقائے باہم کے استحکام کیلئے غیر معمولی اقدامات کئے تھے ۔ ہندوستان نے ہمیشہ مظلوموں کی مدد کی ، انہیں سہارا دیا لیکن مودی حکومت اس پالیسی سے پوری طرح انحراف کرچکی ہے ۔ نتیجہ میں اس کی یہ معاندانہ روش ہندوستان کو کمزور کر رہی ہے۔