مودی حکومت کے 11 سال ڈیٹا پر مبنی تنقید

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

یہ مضمون گزشتہ ہفتہ کے میرے مضمون کا سلسلہ ہے (جو انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس اور اردو کے موقر روزنامہ سیاست میں شائع ہوا) ویسے بھی راقم الحروف کو ایسے اعداد و شمار پسند ہیں جو صحیح اور مصدقہ ہوں لیکن افسوس اس بات پر ہیکہ زیادہ تر قارئین اعداد و شمار کو اہمیت نہیں دیتے۔ انہیں نظرانداز کردیتے ہیں جبکہ کسی بھی حکومت کے کارناموں اس کی کامیابیوں کا اندازہ اعداد و شمار کے ذریعہ لگایا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ حکومتوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے اعداد و شمار کا درست ہونا ضروری نہیں کیونکہ عوام کو رجھانے (بلکہ بیوقوف بنانے کے لئے) بھی ایسے اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں جو متاثر کن دکھائی تو دیتے ہیں لیکن ان کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے آپ کو بتایا کہ لوگ اعداد و شمار کو زیادہ اہمیت نہیں دینے باالفاظ دیگر ان سے کتراتے ہیں۔ ایسے میں یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہمارے ملک کا غیر تعلیم یافتہ طبقہ تو دور تعلیم یافتہ لوگ بھی جب اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو اپنے قدم پیچھے ہٹالیتے ہیں۔ میرا تو یہ ماننا ہیکہ اعداد و شمار الفاظ اور جملوں کی بہ نسبت معاشی حالت کی زیادہ سچی تصویر پیش کرتے ہیں۔ بہرحال اگر بہتر حکمرانی کا قطعی معیار عوام کی فلاح و بہبود ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک فرد کے پاس کھانے پینے، رہنے (روٹی، کپڑا اور مکان) اور تفریح جیسی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے درکار مناسب آمدنی یا آمدنی کے وسائل ہیں (راقم الحروف نے دیگر مصارف یا خرچ کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ گذرتے وقت کے ساتھ ان میں بہت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور ضروری بھی سمجھا جاتا ہے)۔ اگر کہیں سب سے زیادہ معتبر سرکاری اعداد و شمار دستیاب ہیں تو وہ ہاوس ہولڈ کنسیشن ایکسپنڈیچر سروے (HCES) سے حاصل ہوتے ہیں۔ راقم الحروف کے خیال میں آمدنی کی بجائے Consumption کا معیار بہتر ہے کیونکہ یہ ایک عام اور متوسط خاندان کے طرز حیات؍ معیار زندگی اور فلاح و بہبود کی کسوٹی یا پیمانہ ہے۔ آپ کو یہاں ہم یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ HCES مالی سال 2023-24 میں کیا گیا اور اس سروے میں سارے ملک کا احاطہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس Household Consumption Expenditure Survey میں 261953 گھروں سے ان کے مکینوں سے معلومات اکٹھا کی گئں (دیہی علاقوں کے 154357 اور شہری علاقوں کے 1,07,596 مکانات سے معلومات جمع کی گئیں) اور حسن اتفاق سے مسٹر نریندر مودی کی حکومت نے 2023-24 میں اپنے دس سال مکمل کئے اگر ہم HCES ڈیٹا کی بات کرتے ہیں تو یہ ڈیٹا جامع ہے۔ اب ہم بات کرتے ہیں استعمال اور اصل ڈیٹا کی، چنانچہ مذکورہ سروے کا بنیادی نکتہ ماہانہ فی کس اوسط خرچ یا MPCE ہے یعنی کسی فرد کا ماہانہ خرچ جو اس کی معیار زندگی کو ظاہر کرتا ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب یا پھر متوسط طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کی طرز حیات اور معیار زندگی کا پتہ دیتا ہے۔ خوش قسمتی سے آبادی کے مختلف طبقات کا ڈیٹا دستیاب ہے اور یہ ڈیٹا آبادی کو 10 فیصد طبقات میں تقسیم کرکے دستیاب کرایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر 2011-12 میں MPCE کے FRACTILE CLASSES 0-5 فیصد تا 5-10 فیصد 2023-24 میں یہ اوسط دیہی علاقوں میں 521 تا 666 روپے اور شہری علاقوں میں 701 روپے تا 909 جبکہ دیہی علاقوں میں 1677-2126 اور شہری علاقوں میں 2376-3093 روپے رہا۔
< مصارف آمدنی اور قرض لینے کی صلاحیت کا ایک پیمانہ ہے نچلی سطح پر موجود 10 فیصد افراد کی آمدنی یومیہ 50-100 روپے ہے خود سے پوچھئے یومیہ 50-100 روپے آمدنی کا حامل، ایک شخص کس قسم کی غذائی اشیاء استعمال کرسکتا ہے یا کھانا کھاسکتا ہے؟ اس آمدنی میں ایک شخص کے رہنے ؍ قیام کا مقام کیسا ہوسکتا ہے اور کس قسم کس نوعیت کی نگہداشت صحت یا ادویات کا ایک شخص متحمل ہوسکتا ہے۔ آبادی کا 10 فیصد حصہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے یہ ایک نہیں دو نہیں بلکہ 14 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر اگر آبادی کا یہ حصہ ایک الگ ملک ہوتے تو آبادی کے لحاظ سے دنیا میں دسویں مقام پر ہوتے۔ اس کے باوجود نیتی آیوگ اور حکومت کا دعویٰ ہیکہ ہمارے ملک میں غریبوں کی آبادی صرف 5 فیصد ہے یعنی ہندوستان میں غریبوں کی آبادی جملہ آبادی کا صرف 5 فیصد حصہ ہے۔ اگر ہم حکومت کے اس دعویٰ پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دعویٰ انتہائی ظالمانہ اور غیر دیانتدارانہ ہے۔
کسان اور خوراک : مایوس کن ڈیٹا : حکومت کا دعویٰ ہیکہ ملک کے شعبہ زراعت میں شرح نمو زبردست ہے اور اس شعبہ میں غیرمعمولی پیشرفت ہو رہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسان کی زندگی میں پیشرفت ہوئی ہے۔ کسانوں کی زندگیوں میں خوشحالی اور مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہم یہاں NABARD کے ڈیٹا برائے سال 2021-22 پیش کرتے ہیں جو یہ بتاتا ہے کہ زرعی شعبہ سے تعلق رکھنے والے 55 فیصد گھرانے قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں فی کس زرعی گھرانہ پر جو اوسط قرض کا بوجھ ہے وہ 91231 روپے ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 3 فروری 2025 کو لوک سبھا میں حکومت کے ایک ذمہ دار وزیر کی جانب سے دیئے گئے جواب کے مطابق ملک میں 13.08 کروڑ کسانوں پر کمرشیل بینکوں کا 27,67,346 کروڑ روپے کا قرض ہے جبکہ 3.34 کروڑ کسان امداد باہمی یا کوآپریٹیو بینکوں کے مقروض ہیں اور وہ امداد باہمی کی ان بینکوں کو 2,65,419 کروڑ روپے قرض باقی ہیں۔ اسی طرح 2.31 کروڑ کسان علاقائی دیہی بینکوں کو 3,19,881 کروڑ روپے باقی ہیں۔ دوسری جانب پی ایم کسان اسکیم میں کئی ایک خامیاں پائی جاتی ہیں۔ اپریل ۔ جولائی 2023 میں اس اسکیم کے تحت اندراج کی بلند ترین سطح 10.47 کروڑ تھی لیکن 2023 (پندرہویں قسط) میں یہ گرکر 8.1 کروڑ ہوگئی اور حکومت نے دعویٰ کیا ہیکہ فروری 2025 (19 ویں قسط) میں یہ بڑھ کر 9.8 کروڑ تک پہنچ گئی۔ اس طرح ان میں جو تضاد پایا جاتا ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ ناانصافی کی بات یہ ہے کہ خود کسان اس اسکیم کے لئے اہل نہیں ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ فصل بیمہ اسکیم کا یو پی اے حکومت نے بہتر بناکر دوبارہ آغاز کیا تھا پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کو مشروط اجازت دی گئی تھی کہ وہ اس اسکیم کو نہ نفع نہ نقصان کی بنیاد پر چلائیں لیکن این ڈی اے حکومت کی پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا PM FBY ایک استحصال کرنے والی اسکیم میں تبدیل ہوگئی ہے۔ دعوؤں کے مطابق معاوضہ کی ادائیگی پر بیمہ کی رقم کے تناسب سے مالی سال 2019-20 میں 87 فیصد سے گھٹ کر مالی سال 2023-24 میں 56 فیصد رہ گئی۔ دوسری طرف سماجی تحفظ یا سوشل سیکوریٹی کی اسکیم منریگا کو گزشتہ 3 برسوں میں سب سے کم فنڈس فراہم کئے گئے۔ کام کے اوسط ایام 100 کا وعدہ کیا گیا لیکن صرف 51 دن ہی کام دیا گیا۔ اب یہ اسکیم فنڈس کی قلت کا شکار ہو گئی ہے۔ فی فرد 5 کیلو مفت راشن فی الوقت 80 کروڑ لوگوں کو دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تاہم 10 کروڑ مستحق یا اہل شہری اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ مفت راشن اور مڈڈے میل اسکیم کے باوجود بچوں کے ٹھٹھر جانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ تناسب 35.5 فیصد ہے اور بچوں میں Wasting شرح 19.3 فیصد ہے۔ بھوک کے عالمی انڈکس میں ہندوستان کا نمبر 127 ملکوں میں 105 ہے۔