روس کے خلاف کونسل میں قرار داد کے موقع پر ہندوستان غیر حاضر!
نئی دہلی : یوکرین کے صدر یوکرین ولودیمیر زیلنسکی نے ہفتہ کو بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی سے بات چیت کی اور روس کے یوکرین پر حملہ کے پس منظر میں سیاسی حمایت کی درخواست کی ہے ۔ یوکرین کے صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت آیا جب کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں یوکرین پر حملہ کے لیے روس کی مذمت کے لیے قرار داد میں ہندوستان اجلاس سے غیر حاضر رہا ۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری کشیدگی کے درمیان جمعہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف ایک قرارداد پیش کی گئی۔ تمام ممالک کو اس پر ووٹ دینا تھا لیکن ہندوستان نے خود کو اس ووٹنگ سے علیحدہ رکھا۔ہندوستان اور روس پرانے اسٹریٹجک اتحادی رہے ہیں۔ ہندوستان کی نصف سے زیادہ دفاعی خریداری روس سے ہوتی ہے اور روس ہندوستان کا قابل اعتماد اتحادی رہا ہے۔ اب تک روس نے ہند۔چین سرحدی تنازعہ یا پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے کشمیر تنازعہ پر اپنی غیر جانبداری برقرار رکھی ہے۔ کشمیر کے معاملے پر روس نے کہا ہے کہ یہ مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کا دو طرفہ مسئلہ ہے۔ ایسے میں ہندوستان روس کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا۔اس کے ساتھ ہی اگر ہندوستان نے روس کے حق میں ووٹ دیا ہوتا تو اس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہو سکتے تھے۔ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات حالیہ دہائیوں میں مضبوط ہوئے ہیں۔ چین کے ساتھ ہندوستان کے سرحدی تنازعہ پر امریکہ نے بھی ہندوستان کی حمایت میں بات کی ہے۔ ایسے میں ہندوستان امریکہ کو ناراض بھی نہیں کر سکتا اس لیے اس نے ووٹنگ سے دور رہنا ہی درست سمجھا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوستان کو اس معاملے پر غیر جانبدار رہنا چاہیے۔تاہم، 2014 میں، ہندوستان نے اسی طرح کے معاملے میں روس کا ساتھ دیا تھا۔ 2014 میں یوکرین میں روسی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف خانہ جنگی شروع ہوئی جس کے بعد روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا تھا۔ روس نے یوکرین کے حصے کریمیا کو روس کے ساتھ الحاق کر لیا۔ انہوں نے دلیل دی تھی کہ کریمیا میں زیادہ تر روسی بولنے والے لوگ ہیں اور ان کی حفاظت کرنا روس کا فرض ہے۔ کریمیا کے روس سے الحاق کے بعد مغربی ممالک نے روس پر مختلف پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ہندوستان کی منموہن سنگھ حکومت نے روس پر ان پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔اس کے ساتھ ہی سال 2020 میں بھی ہندوستان روس کے خلاف یوکرین کی قرارداد کے خلاف چلا گیا تھا۔ یوکرین کریمیا میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ میں ایک قرارداد لایا تھا جہاں ہندوستان نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ ادھر، ہندوستان نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے دوران کہا ہے کہ تمام رکن ممالک کو اختلافات اور تنازعات کے حل کے لیے سفارتی کوششیں کرنی چاہئیں۔ بات چیت ہی تنازعات کے حل کا واحد راستہ ہے، تاہم وقت لگ سکتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ سفارت کاری کا راستہ چھوڑ دیا گیا۔ ہمیں اس جانب لوٹنا چاہیے۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے ٹی ایس ترمورتی نے کہا کہ ان تمام وجوہات کی بنا پر ہندوستان نے اس تجویز سے باز رہنے کا انتخاب کیا ہے۔ٹی ایس ترومورتی نے ووٹنگ پر ہندوستان کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان یوکرین میں حالیہ پیش رفت سے بہت پریشان ہے۔ ہم اپیل کرتے ہیں کہ تمام کوششیں تشدد اور دشمنی کے فوری خاتمے کی طرف ہونی چاہئیں۔ جمعہ کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس قرارداد کے حق میں 11 ووٹ ڈالے گئے۔ چین، ہندوستان اور متحدہ عرب امارات نے ووٹنگ سے پرہیز کیا۔ سلامتی کونسل میں یہ قرارداد منظور نہیں ہو سکی، کیونکہ کونسل کے مستقل رکن روس نے اس پر ویٹو کر دیا۔ روس کے خلاف قرارداد کی حمایت میں ووٹ دینے والے ممالک میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، البانیہ، برازیل، گبون، گھانا، آئرلینڈ، کینیا، میکسیکو اور ناروے شامل ہیں۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس ہمسایہ ملک یوکرین پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا ۔ خیال رہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کے باغیوں کے زیر قبضہ دو علاقوں کو آزاد قرار دینے کے خلاف امریکہ نے احتجاجاً متعدد پابندیاں عائد کر دی ہیں۔