مودی شاہین باغ کو چائے نوشی پر آئیں۔ سی اے اے، این پی آر، این آر سی ختم کریں

,

   

معمر خاتون مظاہرین کا وزیراعظم کو خط

نئی دہلی، 18جنوری (سیاست ڈاٹ کام) دہلی کے شاہین باغ میں کئی احتجاجیوں نے ہفتہ کو کہا کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کو مکتوب تحریر کرکے انھیں مظاہرین کے ساتھ چائے پر مدعو کرچکے ہیں اور اپیل کی گئی ہے کہ متنازعہ شہریت (ترمیمی) قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کے بارے میں اُن کی تشویش و فکر مندی کو سنیں۔ احتجاجیوں کا دھرنا زائد از ایک ماہ سے مسلسل جاری ہے۔ 80 سالہ بلقیس نے کہا : ’’میں چاہتی ہوں کہ وزیراعظم یہاں (شاہین باغ کو) آنے اور ہمارے مسائل کو سننے کی زحمت کریں۔ وہ کیوں ابھی تک ہم سے ملنے نہیں
آئے ہیں؟‘‘ ایک اور احتجاجی سروری (75 سال) نے کہا کہ انھوں نے بھی پی ایم کو خط لکھا اور ان سے سی اے اے کو واپس لینے اور این آر سی پر عمل نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ 90 سالہ اسماء خاتون نے کہا کہ انھوں نے وزیراعظم کو مدعو کیا ہے کہ آئیں اور ان کے ساتھ چائے نوش کریں اور اس مسئلہ پر ان کی فکرمندی دور کریں۔ دہلی پولیس نے جمعہ کو احتجاجیوں سے اپیل کی تھی کہ کالندی کنج۔ شاہین باغ کی پٹی خالی کردیں کیونکہ دہلی اور این سی آر کے مکینوں کو کافی دشواری ہورہی ہے۔ یہ معاملہ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا۔ تاہم، مظاہرین نے احتجاج کا مقام چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سی اے اے کو ترک کرے اور کوئی این آر سی عمل نہ ہو۔ ان مطالبات کی تکمیل تک وہ اپنا احتجاج ختم کرنے والے نہیں ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون، این پی آر اور این آر سی کے خلاف یہاں شاہین باغ میں خاتون مظاہرین کی روشن کی گئی شمع کی روشنی پورے ملک تک پہنچ چکی ہے۔ احتجاج کی یہ شمع اس وقت خواتین نے رات دن مظاہرہ کرکے جلا رکھی ہے اور اس وقت دہلی میں کئی علاقوں کے علاوہ بہار، مغربی بنگال، مہاراشٹرا، اترپردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، کیرالا اور متعدد دیگر مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ شاہین باغ میں قومی شہریت قانون (سی اے اے)، قومی شہری رجسٹر (این آر سی) اور قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں گھس کر طلبہ پر کی گئی پولیس کی وحشیانہ کارروائی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کے ساتھ بربریت کے خلاف 16دسمبر سے خواتین دن رات مظاہرہ کررہی ہیں جس کی حمایت میں پورے ملک سے سرکردہ شخصیات یہاں پہنچ رہی ہیں۔ بارش اور سرد موسم کے باوجود خواتین کے جوش و خروش اور حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔ وہاں انڈیا گیٹ بھی ہیں اور ہندوستان کا نقشہ بھی ہے اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا حقیقی نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ مختلف چھوٹے چھوٹے
گروپ میں بچے بچیاں، اسکول و کالج کے لڑکے لڑکیاں اس سیاہ قانون کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے آزادی کے حق میں نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں۔ اس وقت پورا جامعہ نگر مجسم احتجاج ہے ۔ اسکول سے آتے ہوئے بچے بھی اس سیاہ قانون کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شاہین باغ کے خواتین میں ہندی میڈیا کی جھوٹی رپورٹ کے سلسلے میں کافی ناراضگی ہے ۔ احتجاج کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ بی جے پی آئی ٹی سل کی یہ کارستانی ہے ۔ وہ لوگ خواتین کی آواز سے خوف زدہ ہیں اور اس لئے گھٹیا حرکت پر اترآئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو مظاہرہ کا سامنا کرنا چاہئے نہ کہ وہ مظاہرہ کے بارے میں غلط باتیں پھیلائیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ اور عام لوگوں نے دھرنے کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے اسے اب چوبیس گھنٹے کا کردیا ہے ۔ شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی، این پی آر کے خلاف اہم شخصیات کا احتجاج کے مقام پر آنا مسلسل جاری ہے ۔ جامعہ کے احتجاج میں یہ الگ ہی رنگ نظر آتا ہے ۔ ایک لائبریری نظر آرہی ہے تو دوسری حراستی کیمپ بھی ہے ، پولیس بربریت کی تصویریں آویزاں کی گئی ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کی علامات نظر آتے ہیں۔ یہاں پورا ہندوستان نظر آتا ہے اور ہندوستان کی ہر زبان میں نعرے لکھے نظر آتے ہیں۔ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جنگ آزادی کے دور کی جھلک نظرآتی ہے ۔کولکاتا کے پارک سرکس میں خواتین نے سخت پریشانیوں کے باوجود اپنا مظاہرہ جاری رکھا اور انتظامیہ کو مجبور ہوکر وہاں ٹینٹ لگانے کی اجازت دینی پڑی۔ انتظامیہ نے سہولت کی لائن کاٹ کر دھرنے کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن خواتین کے عزم و حوصلہ کے سامنے وہ ٹک نہیں پائے۔ اس کے علاوہ ممبئی کے اگری پاڈا علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین شہریت ترمیمی قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف احتجا ج کر رہی ہیں اور حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ کانپور کے چمن علاقے کے محمد علی پارک میں خواتین نے شاہین باغ کی طرز پر گزشتہ چند دنوں سے احتجاج شروع کردیا ہے اور احتجاج کرنے والی خواتین نے اس سیاہ قانون کو واپس لینے کے مطالبے کے ساتھ حکومت سے کہا کہ وہ خواتین کو کمزور نہ سمجھیں اور ان کی آواز کو سنیں۔ مہاراشٹرا کے دھولے میں بھی احتجاج شروع ہوچکا ہے ۔ دہلی کے بع سب سے زیادہ آواز بہار سے اٹھ رہی ہے ۔