عرفان جابری
نریندر مودی کی 2014 ء میں انتخابی فتح جو 25 برسوں میں سب سے زیادہ گونج دار ہے، دو کمزوریوں پر ممکن ہوئی: کانگریس پارٹی میں اُن کے حریفوں کا بُری طرح اعتبار کھودینا اور ملک کا معاشی انحطاط سے دوچار ہونا۔ مودی کی یادگار انتخابی مہم کا ایک عہد یہ رہا کہ سالانہ 10 ملین (ایک کروڑ) نوکریاں پیدا کی جائیں گی، یا یوں کہئے کہ ہر ماہ تقریباً 840,000 جابس ہوں گے۔ یہ وعدہ ایسا رہا کہ ہندوستان کے طول و عرض میں ذات پات سے قطع نظر نوجوانوں میں جوش و خروش پیدا ہوگیا، جو قوم کی 1.35 بلین آبادی کا لگ بھگ دو تہائی حصہ ہیں۔ تاہم، گزرتے وقت کے ساتھ معلوم ہوا کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) زیرقیادت این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) حکومت جابس کی گنجائش نکالنے میں ناکام ہوگئی ہے۔
مودی حکومت نے اس کا اعتراف کرنے کے بجائے اُس سرکاری رپورٹ کو دبا دیا جس نے بیروزگاری کے مسئلے کی شدت کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ چنانچہ نیشنل اسٹاٹسٹیکل کمیشن کے دو سینئر عہدیدار مستعفی ہوگئے، اور پھر ایک مسودہ رپورٹ کا افشاء ہوا جو ظاہر کرتی ہے کہ بیروزگاری 45 سال کی اپنی سب سے اونچی شرح تک پہنچ چکی ہے۔ چھ دیہی نوجوانوں میں سے ایک بیروزگار ہے۔ اس صورتحال پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے: گزشتہ سال یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ 93,000 افراد نے گورنمنٹ کلرک کی حیثیت سے 62 خالی جائیدادوں کیلئے درخواست دی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جامع بہبودی نظام کا فقدان ہونے کی وجہ سے چند ہندوستانی ہی بیروزگاری میں بھی اپنی گزربسر کا انتظام کرلینے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اکثریت کے پاس خودروزگار کے سواء کوئی چارہ نہیں رہتا، یا پھر وہ کچھ کمائی کیلئے غیرموزوں کام کاج شروع کرلیتے ہیں۔
اس کے باوجود اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنے عزائم کی تکمیل کی خاطر حکومت کو حقائق چھپاتے دیکھا گیا ہے اور اُلٹا سوال کیا جارہا ہے کہ کس طرح اُسے واجبی طور پر ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ شاید اِس سال کے جنرل الیکشن سے قبل منفی شہ سرخیوں کو ماند کرنے کی کوشش میں مودی کے وزیر فینانس نے روایت توڑتے ہوئے انتخابی ترغیبات کا (عبوری) بجٹ پیش کیا جس میں 120 ملین غریب کسانوں کو رقمی امداد فراہم کرنے، متوسط طبقہ کیلئے ٹیکس کٹوتوں اور شہری نوجوان ورکرز کیلئے پنشن کے وعدے پر مبنی تجاویز شامل ہیں۔
مودی کو دراصل ہندوستان میں معروف مسئلہ کا سامنا ہورہا ہے۔ کئی دہوں سے ترقی کی متاثرکن شرحوں کے باوجود ہندوستان کے زیادہ تر غریب ترین افراد کو ہنوز کوئی فوائد حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ مودی انڈیا کو دنیا کی سب سے تیز ترقی کرنے والی بڑی معیشت بتاتے ہیں۔ انھیں اس حقیقت کی کچھ پرواہ نہیں ہے کہ جابس کے معاملہ میں بہت ہی تھوڑا کام ہوا ہے۔ انھیں وسیع تر نظر ڈالنا چاہئے کہ ترقی کا مطلب کیا ہوتا ہے، بالخصوص ملک کی انتہائی سماجی عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے انھیں فکرمندی ہونا چاہئے۔ مودی اقتدار نے آفاقی معیاری تعلیم فراہم کرنے کیلئے کچھ خاص نہیں کیا ہے، جو ہندوستانی مملکت کی واضح ناکامی ہے، جہاں دنیا کے ایک تہائی ناخواندہ افراد ہیں۔ حکومت ہند نے وسیع ہیلت انشورنس اسکیم شروع کی، لیکن اس کیلئے بجٹ میں معمولی رقم مختص کی۔ نئی قوت کے ساتھ اُبھرنے والی کانگریس اپوزیشن نے غریب افراد کیلئے اقل ترین آمدنی کی ضمانت کے اپنے وعدے کے واہ واہ حاصل کرلی ہے اور وہ سماج کے نچلے طبقے تک زیادہ وسائل منتقل کرنے پر زور دیتی ہے۔
جمہوری حکومتوں کو انتخابات جیتنا ہوتا ہے اور ان پر عوامی تنقید بھی ہوتی ہے۔ انھیں اپنے عوامی وعدوں کی تکمیل کیلئے مضبوط ترغیبات پیش کرنا چاہئے۔ مودی اپنی سوچ و فکر اور اپنے تجزیے کے مطابق ہی انتخابی مہم چلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہندوستانی سیاسی روایت کو توڑتے ہوئے وزیراعظم نے کبھی کوئی باقاعدہ پریس کانفرنس منعقد نہیں کی ہے۔ سنٹرل بینک (ریزرو بینک آف انڈیا) کے ساتھ اُن کی چپقلش سے سیاسی مقاصد کی خاطر آزاد اداروں کو غیرقانونی طور پر دبانے کے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ مودی نظم و نسق پریشان کن حقائق کو کچل دیتا ہے۔ 2014ء سے غربت کے سرکاری اعداد و شمار کو تازہ نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا شاید ہی ہو کہ مودی اپنے معاشی ریکارڈ پر انحصار کریں گے۔ اندیشہ یہی ہے کہ وہ بی جے پی کی ہندو اکثریت کے غلبہ کی سوچ پر واپس ہوسکتے ہیں تاکہ سماج میں کشیدگی پیدا کی جاسکے۔ جب سے وہ اقتدار میں آئے، فرقہ وارانہ تشدد بشمول مسلمانوں کو ہجوم کے ہاتھوں زدوکوب کرکے ہلاک کردینے کی وارداتوں میں 28% اضافہ ہوا ہے۔ جب ملک انتخابات کی طرف بڑھتا ہے تو لگ بھگ یقینی طور پر روزمرہ کے اہم مسائل کو اُجاگر کیا جاتا ہے لیکن ہندوستان کی اصل طاقت (فرقہ وارانہ ہم آہنگی) کیلئے جدوجہد کے تعلق سے بھی کچھ گہری سوچ کے ساتھ اسے انتخابی موضوع بنانا پڑے گا۔