مودی کے جانشین کی دوڑ میں بہت سارے شامل امیت شاہ کا جانشین کون ؟

   

ڈی کے سنگھ
چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کو فی الوقت بی جے پی میں کافی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ اگرچہ پارٹی میں ان کے مخالفین کی کوئی کمی نہیں ہے، اس کے باوجود وہ آر ایس ایس کے منظور نظر بنے ہوئے ہیں۔ سردست بی جے پی میں یہ بحث زوروں پر ہے کہ حکمراں جماعت میں دو اور تین نمبر پر کون ہے۔ ساتھ ہی یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ آیا یوگی آدتیہ ناتھ کو بی جے پی پارلیمنٹری بورڈ میں شامل کیا جائے گا یا نہیں۔ یاد کیجئے کہ کس طرح بحیثیت صدر بی جے پی راج ناتھ سنگھ نے اس وقت کے چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کو 2007ء میں پارٹی کے پارلیمنٹری بورڈ میں شامل نہیں کیا تھا، لیکن جب دباؤ بڑھ گیا تب راج ناتھ سنگھ نے 2013ء میں نریندر مودی کو دوبارہ پارلیمنٹری بورڈ میں شامل کیا۔ 71 سال کی عمر میں بھی نریندر مودی آئندہ دو لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے کے قابل دکھائی دیتے ہیں۔ اس درمیان یوگی آدتیہ ناتھ کو بہت کچھ کر دکھانا ہے۔ یوگی نے سنگھ پریوار کے اہم قائدین کی نظروں میں اپنا ایک منفرد مقام بنالیا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی عہدہ چیف منسٹری پر دوسری میعاد کسی قدر مودی کی مرہون منت ہے۔ یوگی نے خودساختہ یوپی ماڈل کا نعرہ لگایا حالانکہ بی جے پی کے دوسرے چیف منسٹرس اس کے بارے میں چہ میگوئیاں کرنے لگے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ یوپی ماڈل اپنے ابتدائی مرحلہ سے گذر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ریاست کا ایسا چیف منسٹر جو لوک سبھا میں 80 ارکان بھیجتا ہو، اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن دیکھا جائے تو آج بی جے پی میں اگر وزیراعظم نریندر مودی کے بعد کوئی دوسرا شخص ہے تو وہ یوگی نہیں بلکہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ہیں جو انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بہرحال خیالات گھوڑے دوڑانے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ مودی کے جانشین سے متعلق مباحث قبل از وقت ہیں۔ صرف ایک چیز کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر جانشین کی بات آئے گی تو اس دوڑ میں بہت سارے نام دکھائی دیں گے۔ امیت شاہ ہر وقت پارٹی میں چھائے رہتے ہیں اور انہیں پارٹی میں اعلیٰ انتخابی حکمت ساز کا درجہ حاصل ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں، اس کا اندازہ دوسرے قائدین کو نہیں ہوپاتا۔ 7 مارچ کو اترپردیش میں آخری مرحلے کی رائے دہی تھی، اس دن امیت شاہ اترپردیش میں نہیں بلکہ تریپورہ میں تھے اور بی جے پی کی زیرقیادت حکومت کی چوتھی سالگرہ کے ضمن میں منعقدہ ایک ریالی سے خطاب کررہے تھے جہاں انہوں نے حکومت کو ایک اور میعاد کیلئے موقع دینے کی بات کہی۔ امیت شاہ کے کیلنڈر کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کبھی نہیں تھکتے۔ ہر الیکشن ان کیلئے ایک نیا مشن ہوتا ہے۔ امیت شاہ کو ’’مسٹر ناقابل تسخیر‘‘ کہا جاتا ہے لیکن ہر وقت ناقابل تسخیر نہیں رہتا۔ امیت شاہ خود اس بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ سال 2016ء آنندی بین پٹیل نے چیف منسٹر گجرات کے عہدہ سے استعفیٰ دیا تھا، اس وقت امیت شاہ گجرات کے عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہونے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن مودی نے انہیں گجرات کا چیف منسٹر بننے نہیں دیا۔ بی جے پی میں انتخابی حکمت عملی طئے کرنے والوں کی کمی نہیں ہے، لیکن جب کبھی انہیں الیکشن کے نگران اور معاون نگران بنایا جاتا ہے، امیت شاہ قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتے ہیںیعنی امیت شاہ کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ رائے دہندوں کو رجھانے اور انہیں اپنے قریب لانے کیلئے جو آئیڈیاز امیت شاہ کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، وہ بی جے پی کے کسی دوسرے قائد کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتے۔ اگر آپ دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ 2014ء سے مودی اور امیت شاہ نے کئی چیف منسٹروں کو آگے بڑھایا۔ یوگی آدتیہ ناتھ بھی کامیاب ثابت ہوئے لیکن ان میں انتخابی حکمت سازی کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ وہ ہجوم کو اکٹھا کرسکتے ہیں لیکن یوگی نے کبھی پارٹی کے ساتھ یہ سمجھنے کیلئے قریبی طور پر کام نہیں کیا کہ ہجوم کو کس طرح ووٹوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ سابق چیف منسٹر مہاراشٹرا دیویندر فڈنویس بھی ایک اچھے بلکہ موثر ایڈمنسٹریٹر ثابت ہوئے اور انہوں نے ایک قابل اپوزیشن لیڈر کا رول بھی ادا کیا۔ فڈنویس نے ادھو ٹھاکرے کی زیرقیادت مخلوط حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے، لیکن پارٹی ہائی کمان ایسا لگتا ہے کہ ان کے بارے میں کافی فکرمند ہے کیونکہ وہ 2019ء میں اجیت پوار کی تائید و حمایت سے حکومت قائم کرنے کے باوجود اسے برقرار نہیں رکھ سکے بلکہ اجیت پوار کے اچانک تائید واپس لینے کے ساتھ ہی فڈنویس اور بی جے پی کو شرمساری کا سامنا کرنا پڑا۔
بہرحال امیت شاہ کو ہیمنتا بسوا سرما پر فخر کرنا چاہئے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں وہ امیت شاہ کے بااعتماد آدمی ہیں۔ امیت شاہ کو اس بات کو لے کر بے فکر ہوجانا چاہئے کہ چیف منسٹر آسام میں ان کے جانشین بننے کی پوری پوری صلاحیت ہے۔