شجاعت علی آئی آئی ایس ‘ریٹائرڈ
اُردو کے عالمگیر شہرت کے حامل شاعر بشیر بدر نے ایک مشاعرہ میں اپنے دو شعر پڑھنے سے پہلے یہ بتایا تھا کہ انہوں نے ایک ہندو بزرگ سے یہ دریافت کیا کہ کسی بھی ہندو بھائی کا دیہانت ہوجاتا ہے تو انہیں سپرد آگ کردیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد چتا کی اس راکھ کو دریا کے حوالے کیا جاتا ہے اور وہ بالآخر سمندر میں مل جاتی ہے یعنی ان کے انتقال کے بعد ان کا رشتہ سرزمین ہند سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی پس منظر میں انہوں نے اُن ہندو بزرگ سے پوچھا کہ اس حقیقت کے پیش نظر ہندوستان کا سچا وفادار کون ہے؟ یہ کہنے کے بعد بشیر بدر نے اپنے وہ دو متاثر کن شعر سامعین کی نذرکئے۔ یہ دو اشعار نہیں ہیں بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی وطن پرستی کے پُروقار شاہکار ہیں۔ وہ شعر یوں ہیں کہ
ہندوستان کا سچا وفادار میں ہی ہوں
قبروں سے پوچھ! اصل زمیندار میں ہی ہوں
دریا کے ساتھ وہ تو سمندر میں بہہ گیا
مٹی میں مل کے مٹی کا حقدار میں ہی ہوں
یہ موضوع میرے ذہن میں اس لئے آیا کہ ملک میں کچھ نا سمجھ ، بے وقوف ، انسانیت اور تاریخ کی قدر نہ کرنے والے بے سمت، بے راہ رو، فرقہ پرست مخالف مسلم عناصر بار بار مسلمانوں کی عظمت، ملک کے لئے ان کی جانب سے دی گئی قربانیوں ، ان کے ہاتھوں سے تعمیر کئے گئے بے شمار تاریخی عمارتوں سے ان کے رشتہ کو توڑتے ہوئے ، غلط پروپگنڈہ کرتے ہوئے ، مسلمانوں کی اہمیت کو گھٹانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ یہ کبھی چارمینار کو تو کبھی لال قلعہ کو تو کبھی دنیا کے ساتویں عجوبے تاج محل کو اپنی تنقیدوں کا موضوع بناتے ہوئے یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ تعمیرات مسلمانوں کی نہیں ہیں۔اس گھناونے اور تفرقہ پیدا کرنے والے پروپگنڈہ کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے میں اس مضمون کو آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ اب میں آپ کو ایک ایسی تاریخی یادگار کی طرف لے جانا چاہتا ہوں جسے ساری دنیا ’’انڈیا گیٹ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ یادگار دراصل مختلف جنگوں میں شہید ہوئے سپاہیوں کو خراج ہے۔ اس یادگار پر کوئی 95ہزار 300 مجاہدین آزادی کے نام نقش ہیں جن میں سے 61ہزار 395 مسلمان شہیدوں کے نام ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آزادی کی تحریک میں جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان میں سے 65 فیصد مجاہدین مسلمان ہیں۔کیا کسی نام نہاد کٹر فرقہ دشمن شخص میں اتنی ہمت ہے کہ وہ اس سچائی کو غلط ثابت کردکھائے۔ ملک کے مایہ ناز صحافی و کالم نگار خشونت سنگھ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ ’’ہندوستان کی آزادی مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے ، آزادی کی مختلف تحریکوں میں ان کا حصہ ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ آج ہمیں یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے کہ مسلمانوں کی قربانیوں کو جان بوجھ کر چھپایا جارہا ہے۔ آیئے ہم ہندوستان کی عظیم ترین تاریخ میں ان کے حصے کو تلاش کریں۔ سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ آزادی کی پہلی تحریک حیدرعلی نے چلائی تھی۔ پھر اس کے بعد جدوجہد آزادی کی اس مہم کو ان کے فرزند ارجمند ٹیپو سلطان نے جلا بخشی اور 1790 میں انہوں نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جسے
Mysorian Rockets
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ان راکٹس کے ذریعہ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے تھے۔ٹیپو کی عظمت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ان کی ایک تصویر NASA یعنی امریکہ کے نیشنل ایروناٹیکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن کی لابی میں آویزاں کرکے ان کی عظمت کا اعتراف کیا گیا۔ ان راکٹوں کو حیدرعلی اور ٹیپو سلطان دونوں ہی نے 1780 سے لے کر 1790 تک انگریزی فوجوں کے خلاف انتہائی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ سب کو یہ معلوم ہے کہ رانی جھانسی نے اپنے گود لئے بچے کے لئے اپنی مملکت کو آزاد کروانے کی جنگ کی تھی لیکن کتنے لوگوں کو اس بات کا پتہ ہے کہ بیگم حضرت محل جنگ آزادی کی پہلی مجاہدہ تھیں۔ ان کو اس بات کا فخر حاصل ہے کہ انہوں نے برطانوی حکمراں سر ہنری لارنس کو گولی ماری تھی۔ 30جون 1857 کی چن ہرٹ کی فیصلہ کن جنگ میں بیگم حضرت محل کے ہاتھوں انگریزوں کو شکست فاش ہوئی تھی۔ جنگ آزادی کی پہلی تحریک مولوی احمد اللہ شاہ نے شروع کی تھی جس میں کئی جانبازوں نے اپنی زندگیوں کی قربانی دی تھی جن میں سے نووے فیصد شہید مسلمان تھے۔ اشفاق اللہ خان وہ پہلے نوجوان تھے جنہیں 27 سال کی عمر میں انگریزوں نے پھانسی کی سزا دی تھی۔ ان پر یہ الزام تھا کہ وہ انگریز وں کو ہندوستان سے بھگانے کی سازش کررہے تھے۔ آج مہاتما گاندھی ، سردار ولبھ پٹیل، پنڈت جواہر لال نہرو اور دیگر قائدین کو تو یاد کیا جاتا ہے لیکن لوگ مولانا ابوالکلام آزاد کو بھول جاتے ہیں جنہوں نے کانگریس کے ایک قائد ہونے کے ناطے آزادی کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بحالی کے لئے جاں توڑ خدمات انجام دیں۔ مہاتما گاندھی کے زیر قیادت شراب کی دکانوں کے خلاف جن 19 لوگوں نے حصہ لیا تھا ان میں سے 10 مسلمان تھے۔ بہادر شاہ ظفر کے رول کو بھی ہم فراموش کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے 1857 میں انگریزوں کے خلاف ساری قوت کے ساتھ لوہا لیا تھا۔ آنجہانی وزیراعظم راجیو گاندھی نے جب ان کی مزار پر حاضری دی تو کتاب الرائے میں لکھا ’’ حالانکہ آپ کو ہندوستان میں زمین نہیں مل سکی آپ یہاں آرام کررہے ہیں ، آپ کا نام زندہ وتابندہ ہے ، میں آپ کو اپنا خراج پیش کرتا ہوں کہ جنگ آزادی آپ کی قیادت میں ہی لڑی گئی تھی ‘‘۔ ایم کے ایم امیر حمزہ نے جنہیں خود مسلمان بھی نہیں جانتے ہوں گے ، انڈین نیشنل آرمی کو لاکھوں روپیوں کا عطیہ دیا تھا۔ انہوں نے اپنی آزاد لائبریری کے ذریعہ ہندوستان کی آزادی کی مہم چلائی تھی۔ آج ان کے خاندان کے ارکان ٹاملناڈو کے شہر رام ناتھ پورم میں انتہائی کسم پرسی کے عالم میں زندگی گذاررہے ہیں۔ ایک اور شخصیت میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی کی ہے جنہوں نے اس دور میں انڈین نیشنل آرمی کو ایک کروڑ کا عطیہ پیش کیا تھا۔ یعنی انہوں نے اپنی ساری دولت اپنے وطن کی آزادی کے لئے لٹا دی۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی میں 19 وزرا ہوا کرتے تھے جن میں پانچ مسلمان تھے۔ شاہ نواز خان نے جو کہ اک سپاہی بھی تھے ، اک سیاستداں بھی تھے اور آئی این اے کے چیف آفیسر اور کمانڈر کے طورپر انہوں نے آزادی کی جنگ میں غیرمعمولی رول ادا کیا تھا۔ مدر بی وی ماں ایک ایسی مسلم خاتون بھی آزادی کی تحریک کے دوران گذری ہیں جنہوں نے اس دور میں آزادی ہند کے لئے 30لاکھ روپئے کا گرانقدر عطیہ مجاہدین کے حوالے کیا تھا۔
ابوالکلام آزاد، جناح اور نواب آف بہار نے مہاتما گاندھی کے زیر قیادت مکمل آزادی کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے مساجد کو آزادی کا ولولہ پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ مساجد کے آئمہ اپنے خطبوں میں شعلہ بیانی کے ذریعہ ہندوستان کی تحریک کو مضبوط و مستحکم کرتے تھے۔ اترپردیش کی ایک مسجد میں وہاں کے امام آزادی کے لئے پرجوش تقریر کررہے تھے تو انگریز فوجیوں نے وہاں پر بہیمانہ حملہ کردیا اور مسجد میں موجود تمام نمازیوں کواپنی گولیوں سے چھلنی چھلنی کردیا۔ مٹھی بھر مخالف مسلم عناصر کو ہم یہی بتانا چاہیں گے کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی 800 سال خدمت کی اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک بڑے ملک میں تبدیل کیا جس کو ساری دنیا آج ہندوستان کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمان برطانیہ ، نیدر لینڈ اور فرانس کی طرح یہاں سے کچھ نہیں لے گئے بلکہ انہوں نے اپنا سب کچھ خاک وطن پر نثار کردیا۔ وہ یہیں پر جیئے، یہیں پر حاکم بھی بنے اور یہیں پر وفات پاکر اسی سرزمین کا حصہ بن گئے۔ مسلمانوں نے نہ صرف ہندوستان کو متحد کیا بلکہ اس وطن عزیز کو ایک مضبوط تہذیب بھی عطا کی۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ان ہی مسلم حکمرانوں کی وجہ سے ہندوستان ادب، علم، فن تعمیر سے مالا مال ہوا ، سیاسی ڈھانچے، قابل عمل نظام حکومت مسلمانوں ہی کی دین ہے اور یہ حکمت عملی آج بھی جاری ہے۔ جنگ آزادی میں اتنے مسلمانوں نے حصہ لیا ہے کہ اگر ایک ایک کرکے ان کا نام لکھا جائے تو 200 انڈیا گیٹس بھی کم پڑ جائیں گے۔
ان ساری سچائیوں کے باوجود اگر کوئی فرقہ پرست اور مسلم دشمن شخص مجھ سے یہ پوچھے گا کہ ہندوستان کا سچا وفادار کون ہے تو اس سے میں سینہ ٹھوک کر کہوں گا کہ ہندوستان کا سچا وفادار میں ہی ہوں۔
[email protected]