مسلم علاقہ پاکستان … ہائی کورٹ جج کی سپریم کورٹ نے سرزنش کی
کاشی اور متھرا کے بعد اجمیر شریف پر بری نظریں
رشیدالدین
نفرت کا جذبہ جب سر چڑھ کر بولنے لگے تو اونچے عہدوں پر فائز افراد بھی بھول جاتے ہیں کہ آخر کیا کہہ رہے ہیں۔ سیاسی قائد یا جارحانہ فرقہ پرستی کا پروردہ کوئی شخص اگر مسلمانوں کو نشانہ بنائے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ اس کی مجبوری ہے لیکن انصاف کی کرسی پر فائز جج کی زبان نفرت اگلنے لگے تو پھر انصاف کی امید کس سے کی جائے گی ؟ گزشتہ 10 برسوں میں نریندر مودی حکومت نے ملک میں نفرت اور تعصب کا جو ماحول پیدا کیا ، اس کے اثر سے عدلیہ بھی محفوظ نہیں رہی۔ وکلاء اور قانون دانوں کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مقدمات اور زہر افشانی کوئی نئی بات نہیں رہی لیکن ججس کی جانب سے مخالف فیصلے آنے لگے ہیں۔ اسلامی قوانین، عبادت گاہوں اور شعائر اسلام کے خلاف عدلیہ نے حالیہ عرصہ میں کئی فیصلے سنائے۔ حجاب، اذاں حتیٰ کہ سڑکوں پر نماز کے خلاف تحت کی عدالتوں کے فیصلے نفرت اور تعصب کی مہم کے زیر اثر نہیں تو کیا ہیں۔ بعض مقدمات میں ریٹائرمنٹ سے قبل آخری فیصلہ سنگھ پریوار کی مرضی کے مطابق دیا گیا اور کچھ عرصہ بعد مذکورہ جج کسی بڑے عہدہ پر فائز دکھائی دیئے۔ بابری مسجد اراضی معاملہ میں فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے ججس کو مابعد ریٹائرمنٹ انعامات سے ہر کوئی واقف ہے۔ ملک کے موجودہ نفرت کے ماحول اور ہندوتوا طاقتوں کے بے لگام ہونے کے باوجود عدلیہ سے عوام کی امید برقرار ہے۔ مقننہ اور عاملہ پر بھلے ہی نفرت کے سوداگروں کا کنٹرول ہو لیکن عدلیہ مجموعی طور پر ابھی بھی آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ عدلیہ میں فرقہ پرست ذہنیت کو سرائیت کرنے کی کوشش ضرور کی گئی لیکن جب کبھی دستور اور قانون کو خطرہ لاحق ہوا ، عدلیہ نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ قانون کی بالادستی کے ذریعہ عدلیہ نے جمہوریت اور دستور کا تحفظ کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس وی سریشانند کے قابل اعتراض ریمارک پر از خود کارروائی شروع کی۔ سپریم کورٹ کے دستوری بنچ کی سرزنش کے بعد جسٹس سریشانند کو نہ صرف الفاظ واپس لینے پڑے بلکہ معذرت خواہی کرنی پڑی۔ جسٹس چندر چوڑ کے غیر جانبدارانہ اور بے باک امیج کو متاثر کرنے کی کوشش ضرور کی گئی لیکن چندر چوڑ کے پایہ استقلال متزلزل نہیں ہوئے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے چیف جسٹس کی قیامگاہ پر پوجا میں حصہ لینے کے بعد دستور اور قانون کے ماہرین نے اعتراض کیا تھا کیونکہ حکومت کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش کے طور پر نریندر مودی کا پوجا میں حصہ لینا دیکھا گیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے جج کے معاملہ میں کارروائی کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ وہ عدلیہ کو نفرت سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے جج نے کسی مقدمہ کی سماعت کے دوران مسلم اکثریتی آبادی والے ایک علاقہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسے پاکستان کہا تھا۔ عدالتوں کی کارروائی چونکہ لائیو ہوچکی ہے، لہذا جسٹس سریشانند کے پاکستان والے ریمارکس وائرل ہوگئے ۔ جسٹس سریشانند کا یہ ریمارک محض اتفاق کہا نہیں جاسکتا بلکہ ہر سطح پر نفرت کی مہم کے زیر اثر یہ جملہ ادا کیا گیا ۔ مسلمان کے ساتھ پاکستان کو جوڑ دینا آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے نظریات کا حصہ ہے۔ جسٹس سریشانند اپنے اندر چھپی نفرت کو چھپا نہیں سکے اور بے قابو ہوکر اپنی ذہنیت کو دنیا کے سامنے پیش کردیا ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ عام طور پر ایسے ججس جو ریٹائرمنٹ کے بعد کسی عہدہ کے خواہشمند ہوتے ہیں ، وہ مسلمانوں کے خلاف فیصلے سنارہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جسٹس سریشانند کے بھی کچھ درپردہ مقاصد ہوں، عدالتی کارروائی کے لائیو ہونے کا علم رکھنے کے باوجود مسلم علاقہ کو پاکستان کہنا زبانی لغزش نہیں بلکہ اپنے آقاؤں تک نفرت انگیز ریمارکس پہنچاکر واہ واہی حاصل کرنے کی شائد کوشش تھی۔ جسٹس سریشانند کے خلاف کسی نے شکایت نہیں کی لیکن چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جج کے خلاف از خود کارروائی کا آغاز کیا۔ جسٹس سریشانند کی معذرت خواہی پر کارروائی کو بند کیا گیا۔ چیف جسٹس چندر چوڑ کی زیر قیادت دستوری بنچ کا احساس تھا کہ ہندوستان کے کسی علاقہ کو پاکستان نہیں کہا جاسکتا اور یہ ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے۔ دستوری بنچ کے اس اقدام سے مسلمانوں کے خلاف عدالتوں میں ریمارکس پر ہمیشہ کیلئے فل اسٹاپ لگ سکتا ہے۔ اگر کسی شکایت کے انتظار میں جسٹس چندر چوڑ خاموش ہوجاتے تو دوسرے ججس کو ہمت مل جاتی اور وہ جسٹس سریشانند کی پیروی میں اور بھی سخت ریمارکس کرسکتے تھے۔ جسٹس چندر چوڑ نے عدلیہ کو نفرت انگیز مہم سے بچا لیا ہے ۔ جہاں تک مسلمانوں کو پاکستانی اور مسلم علاقوں کا منی پاکستان قرار دینے کا معاملہ ہے ، یہ اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے نفرت کے سوداگروں نے ایک سے زائد مرتبہ کھلے عام مسلمانوں کو نہ صرف پاکستانی کہا بلکہ پاکستان جانے کا مشورہ دیا۔ بعض نے بی جے پی برسر اقتدار آنے پر پاکستان بھیج دینے کی دھمکی دی۔ پاکستان کا نام لے کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے بھول رہے ہیں کہ نریندر مودی نے نواز شریف کی سالگرہ میں بن بلائے مہمان بن کر شرکت کی اور پاکستانی غذاؤں کی تعریف کی ۔ نواز شریف کی سالگرہ میں شرکت کرنے والے نریندر مودی اور پاکستان نے محمد علی جناح کی مزار پر حاضری دے کر انہیں سیکولر قرار دینے والے ایل کے اڈوانی کے ہندوستانی ہونے پر شبہ کیوں نہیں کیا جاتا ؟ مسلمانوں نے پاکستان کے نظریہ کو ٹھکرا دیا اور ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کیا تاکہ دیگر ابنائے وطن کے ساتھ محبت اور رواداری کے ساتھ زندگی بسر کی جائے۔
مسلمانوںکے خلاف نفرت کے پرچار میں وزیراعظم نریندر مودی کبھی پیچھے نہیں رہے۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنے کیلئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ ہندوؤں کے اثاثہ جات کو چھین کر کانگریس پارٹی زیادہ بچے پیدا کرنے والوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ نریندر مودی نے ایک مرحلہ پر مسلمانوں کو لباس سے شناخت کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ گجرات فسادات کے بعد سے نریندر مودی کی ذہنیت مسلمانوں کے بارے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ بظاہر پسماندہ مسلمانوں کی ترقی کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ 10 برسوں میں ایک بھی کام مسلمانوں کے حق میں نہیں کیا گیا ۔ گجرات فسادات کے متاثرین آج تک انصاف سے محروم ہیں۔ مودی حکومت کا بس چلے تو وہ قومی سطح پر اقلیتی امور کی وزارت کو ختم کردے گی۔ ملک میں نفرت اور تعصب کی لہر عبادتگاہوں سے نکل کر درگاہوں تک پہنچ چکی ہے ۔ اجمیر میں حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی بارگاہ کو شیو مندر قرار دینے کیلئے عدالت میں درخواست دائر کی گئی۔ یہ وہ درگاہ ہے جہاں دنیا بھر سے مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والے حاضری دے کر اولیاء اللہ سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ بی جے پی نے درگاہ کو شیو مندر قرار دینے کے مطالبہ کی مذمت تک نہیں کی۔ اچھا ہوا کہ عدالت نے درخواست کو مسترد کردیا ۔ اگر کوئی تعصب پسند جج ہوتا تو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو درگاہ کے سروے کی ہدایت دیتا۔ کاشی اور متھرا کی مساجد اور عیدگاہ کو مندر میں تبدیل کرنے کی سازش کے دوران اجمیر شریف کو نشانہ بنانا انتہائی بدبختانہ ہے۔ ہر سال عرس کے موقع پر خصوصی چادر روانہ کرنے والے نریندر مودی کو کم از کم اس مہم کی مذمت کرنی چاہئے تھی۔ کاشی اور متھرا کے معاملہ میں عدالتوں کے نرم رویہ سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ بابری مسجد کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔ فرقہ پرستوں نے تاج محل اور قطب مینار کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ ان دونوں کے بارے میں بھی مندر ہونے کا دعویٰ پیش کیاجاچکا ہے۔ دہلی کی شاہی عیدگاہ پارک میں ہائی کورٹ نے رانی لکشمی بائی کا مجسمہ نصب کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عیدگاہ کے احاطہ میں مجسمہ کی تنصیب کی اجازت کیوں دی گئی ؟ عیدگاہ کا انتظام اگر مقامی بلدیہ کے تحت ہے تو پھر وہاں مجسمہ کی تنصیب کا مطالبہ کرنا اس لئے بھی مناسب نہیں کیونکہ مسلمانوں کی عبادت کے مقام پر کسی بھی مورتی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پھر نئی دہلی کی جامع مسجد اور ملک کی دیگر تاریخی مساجد اور درگاہیں فرقہ پرستوں کے ایجنڈہ میں شامل ہوجائیں گی۔ فرقہ پرستوں کو بے لگام چھوڑ کر نریندر مودی حکومت درپردہ ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ نفرت کے ماحول میں منور رانا کا یہ شعر فرقہ پرستوں کیلئے مناسب جواب ہے ؎
بدن میں دوڑتا سارا لہو ایمان والا ہے
مگر ظالم سمجھتا ہے کہ پاکستان والا ہے