میں اپنی ہار پر نادم ہوں اس یقین کیساتھ

   

بابری مسجد مقدمہ : سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مصالحتی فارمولہ
ثبوت نظرانداز ….. آستھا کو ترجیح

رشید الدین

بابری مسجد ملکیت اراضی کے معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اندیشوں کے عین مطابق ثابت ہوا اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے 2.77 ایکر متنازعہ اراضی مندر کی تعمیر کیلئے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ میں 40 دن تک مسلسل سماعت کے دوران فریقین نے اپنے اپنے دعوؤں کے حق میں بھرپور دلائل پیش کئے لیکن سیاسی مبصرین اور ماہرین قانون کی نظر میں عدالت العالیہ کا فیصلہ حیرت انگیز ثابت ہوا ہے۔ 2010ء میں الہ آباد ہائیکورٹ نے اراضی کو تین فریقین میں تقسیم کرنے کے احکامات جاری کئے تھے لیکن سپریم کورٹ نے صرف ایک فریق کو ساری اراضی حوالے کرنے کی تائید کی۔ عدالت نے شیعہ وقف بورڈ اور نرموہی اکھاڑے کی دعویداری کو مسترد کردیا اور باقی فریقین کو مطمئن کرنے کیلئے تقسیم سے متعلق ایک نیا فارمولہ پیش کردیا۔ عدالتی سماعت کے دوران اور پھر فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد حکومت اور برسراقتدار پارٹی کی سطح پر جس انداز کی سرگرمیاں جاری تھیں اس سے اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ فیصلہ کس نوعیت کا ہوسکتا ہے۔ فیصلے کے بارے میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے پہلے ہی کھل کر بیان بازی کردی لیکن سپریم کورٹ نے فیصلے سے قبل جشن کی باتوں کو نظرانداز کردیا۔ سپریم کورٹ کا وقار اور اس کا احترام اپنی جگہ ہے لیکن جمہوریت ا ور دستور میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے اور یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرنا کوئی جرم نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں مسلم فریقین کے کئی دعوؤں کو قبول کیا لیکن فیصلے میں اس کا اثر دکھائی نہیں دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی فریق کے ثبوت عدالت کی نظر میں درست ہیں تو پھر اس کا اظہار فیصلے میں کیوں نہیں ہوتا۔ اگر ثبوت اور گواہوں کے بجائے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنانا تھا تو پھر ماہرین قانون کی نظر میں 40 دن کی سماعت کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا غیرجانبداری سے جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا بلکہ ایک مصالحتی فارمولہ قوم کے سامنے پیش کردیا تاکہ فریقین کو مطمئن کیا جاسکے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تین رکنی مصالحتی کمیٹی کی سفارشات کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے طور پر پیش کردیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے تین رکنی مصالحتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے فریقین سے مشاورت کے بعد عدالت کو واضح کردیا تھا کہ اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ ممکن نہیں ہے لیکن سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے دوبارہ مصالحتی کمیٹی کو متحرک کیا جس نے اپنی رپورٹ مہر بند لفافے میں پیش کردی۔ چونکہ یہ رپورٹ ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہے لہذا ماہرین قانون کو اندیشہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مصالحتی کمیٹی کی رپورٹ کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ میں شامل کردیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں رام مندر کا جو ایجنڈہ گزشتہ کئی برسوں سے شامل رکھا ہے آخر کار ایجنڈہ پر سپریم کورٹ کی مہر ثبت ہوچکی ہے۔ عدالت کا فیصلہ مسلم فریق کو مطمئن کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ عدالت کے فیصلے سے قبل ملک بھر میں جس طرح کے سکیورٹی انتظامات کئے گئے اور خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں جس طرح کی چوکسی اختیار کی گئی وہ عدالت کے نام پر ملک میں ’’پولیس ایکشن ‘‘کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کو 27 سال گزرنے کے باوجود آج تک انصاف نہیں مل سکا اور سپریم کورٹ سے قوم کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں ۔ عدالت نے 1949ء میں مسجد میں مورتیوں کی تنصیب کو غیرقانونی تسلیم کیا ۔ اس کے علاوہ 6 ڈسمبر 1992ء کو مسجد کی شہادت کو بھی غیرقانونی قرار دینے سے گریز نہیں کیا۔ فیصلے میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ مسلمان بابری مسجد میں نماز ادا کررہے تھے۔ ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود متنازعہ اراضی کو کسی ایک فریق کے حوالے کرنا انصاف رسانی کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ دستور میں کسی بھی حکومت کو عبادت گاہوں کی تعمیر کا ذمہ نہیں دیا گیا ہے لیکن سپریم کورٹ نے حکومت کو مندر کی تعمیر کیلئے اندرون تین ماہ ٹرسٹ کے قیام کی ہدایت دی ہے۔ کیا عدالت آئندہ حکومتوں کو عبادت گاہوں کی تعمیر کا اختیار دیتے ہوئے ایک نیا تنازعہ پیدا کرنا چاہتی ہے؟فیصلے میں تاخیر سے مسلمانوں کو انصاف کی امید تھی لیکن مسجد کے لئے متبادل 5 اراضی کا ’’لالی پاپ‘‘ دے کر خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جہاں تک شریعت کا سوال ہے مسجد کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مسجد کی اراضی فروخت کرنے یا گفٹ کرنے کا کسی کو اختیار ہے۔ 5 ایکر کیا اگر 500 ایکر بھی مسجد کے متبادل کے طور پر الاٹ کی جائے تو مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ۔ عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا کہ مندر کے انہدام کے ذریعہ بابری مسجد کی تعمیر کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آرکیالوجیکل سروے کی کھدائی میں مندر کی نشانیاں ضرور ملی ہیں لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ نشانیاں واقعی رام مندر کی تھیں جسے منہدم کرکے مسجد تعمیر کی گئی۔ سپریم کورٹ نے مسلم فریق کے کئی دلائل کو قبول کیا اور بعض کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی جو مسلم فریق کے وکلاء نے بحث کے دوران کی ہیں۔ کئی ایسے معاملات تھے جنہیں بہ آسانی ثابت کیا جاسکتا تھالیکن مسلم فریق کے وکلاء اس کی موثر نشاندہی میں ناکام ثابت ہوئے۔ اب جبکہ فیصلہ منظر عام پر آچکا ہے مسلم پرسنل لا بورڈ نے ریویو پٹیشن دائر کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ عدالتوں کے فیصلے حرف آخر نہیں ہوسکتے اور سابق میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی ہے۔ ٹاملناڈو میں جلی کٹو معاملہ میں سپریم کورٹ کو عوامی احتجاج کے چلتے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جب مسلم اقلیت کا معاملہ آئے تو عدالتوں کو انصاف اور انسانیت کا خیال آتا ہے جیسے طلاق ثلاثہ معاملہ میں خواتین کو انصاف کے نام پر مسلمانوں کی آستھا کا احترام نہیں کیا گیا۔ کیا ملک میں صرف ایک مذہب کے ماننے والوں کی آستھا کا احترام ہونا چاہئے؟ جبکہ دستور نے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی دی ہے۔ مبصرین کے مطابق 1949ء میں مورتیوں کی تنصیب اور ڈسمبر 1992ء میں مسجد کی شہادت جب غیرقانونی ہے تو پھر متنازعہ اراضی کو کسی ایک فریق کے حق میں کس طرح الاٹ کیا جاسکتا ہے۔ کیا سپریم کورٹ اپنے پیشرو ججس کے فیصلے کو نظرانداز کررہی ہے جنہوں نے 1992ء میں مسجد کا جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کی ہدایت دی تھی۔
فیصلے سے عین قبل وزیراعظم نریندر مودی نے کابینی اجلاس طلب کرتے ہوئے وزراء کو غیرضروری بیانات سے گریز کی تاکید کی تھی۔ مرکزی کابینہ نے فیصلہ کو ہار۔ جیت کے نظریہ سے دیکھنے کے بجائے من و عن قبول کرنے اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی تھی۔ بی جے پی نے اپنے قائدین کو بیان بازی سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے ارکان پارلیمنٹ کو امن کی برقراری کیلئے اپنے انتخابی حلقوں کے دورہ کی ہدایت دی تھی۔ آر ایس ایس نے مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں اور مذہبی شخصیتوں کے ساتھ اجلاس منعقد کیا۔ ایک سے زائد مرتبہ مختلف سطح پر ملاقاتیں ہوئی اور سپریم کورٹ کے مجوزہ فیصلے کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے بھی آر ایس ایس اور مسلم تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ الغرض فیصلے سے قبل کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں مختلف اندیشے پیدا ہورہے تھے۔ مسلم جماعتوں اور مقدمہ کے فریقین کے علیحدہ اجلاس منعقد ہوئے جس میں فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ امن و امان کی برقراری کی مساعی چاہے وہ سرکاری سطح پر ہو یا غیرسرکاری سطح پر اس کا یقینا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ لیکن مقدمہ کے فیصلے کے بارے میں غیرمحسوس طریقہ سے مسلمانوں میں مایوسی پیدا کرنے کی کوشش باعث تشویش ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت اور سنگھ پریوار سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں واقف تھا لہذا پہلے سے مسلمانوں کو فیصلہ قبول کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کیا گیا۔ قیام امن سے کسی کو انکار نہیں لیکن جن کی زبان پر آج امن کا نعرہ ہے ان کے بیک گراؤنڈ کو دیکھیں تو یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔ ایسے ہی کچھ لوگوں کی زبان پر امن و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی باتیں تلگو زبان کی ایک کہاوت کی طرح ہیں کہ ’’شیطان ویدوں کا درس دینے لگے‘‘۔ نریندر مودی، موہن بھاگوت، یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی اور سنگھ پریوار کے سرکردہ قائدین ان دنوں جیسے پیامبر امن بنے ہوئے ہیں اور انہیں امن کے نوبل انعام کیلئے غور کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو جب اٹھتے بیٹھتے امن کی اس قدر فکر ہے تو پھر 6 ڈسمبر 1992ء کو مسجد کی شہادت کے وقت یہ خیال کیوں نہیں آیا؟ اگر مسجد کو شہید نہ کرتے تو آج سپریم کورٹ کے فیصلے کی نوبت نہ آتی اور فیصلے کے بعد اندیشوں کی ضرورت نہ ہوتی۔ امن اور بھائی چارہ کی آج کی طرح ضرورت ڈسمبر 1992ء میں بھی تھی لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار کو صرف مسجد کی شہادت سے دلچسپی تھی۔ 1992ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو آج بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جب عدالت نے بابری مسجد کے تحفظ کی ہدایت دی تھی، لیکن حکومتوں کے ساتھ سنگھ پریوار نے احکامات کو بے خاطر کردیا جبکہ آج اسی سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرنے کے حق میں باقاعدہ مہم ہر سطح پر جاری ہے۔ مرکز کی نرسمہا راؤ اور یوپی میں کلیان سنگھ کی زیرقیادت بی جے پی حکومتوں نے مسجد کی حفاظت کا حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل کیا تھا لیکن آخر کار وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ سپریم کورٹ تو وہی ہے لیکن 27 سال قبل کے احکامات کی دھجیاں اڑائی گئیں جبکہ آج فیصلہ سے قبل ہی ’’تسلیم کرنے کا عہد‘‘ لیا گیا ہے۔ ڈسمبر 1992ء میں عدلیہ کا احترام کیا جاتا تو نہ صرف مسجد کا وجود باقی رہتا بلکہ شہادت کے بعد ملک میں فسادات نہ ہوتے اور کئی بے قصور انسانی جانیں ضائع ہونے سے بچ جاتیں۔ مذہبی منافرت پھیلانے والوں کی سرپرستی تو خود بی جے پی نے کی تھی۔ یہی بی جے پی قائدین نے مندر کیلئے یاتراؤں کا اہتمام کیا اور 6 ڈسمبر کو کارسیوکوں کے ساتھ ایودھیا میں رہ کر مسجد کی شہادت کیلئے اکسایا تھا۔ بابری مسجد کے قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں اور آر ایس ایس بی جے پی اور سنگھ پریوار کی پشت پناہی میں ہیں۔ امن اور بھائی چارہ کی اپیل یقینا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار اپنی اپیل میں سنجیدگی کا ثبوت دینے کیلئے 6 ڈسمبر 1992ء کے سانحہ پر قوم سے معذرت خواہی کریں اور فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعہ مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔ عدلیہ اور قانون کی بالادستی کی برقراری اور اقلیتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے یہ ضروری ہے۔ منور رانا کا یہ شعر عدالت کے فیصلے پر صادق آتا ہے :
میں اپنی ہار پر نادم ہوں اس یقین کے ساتھ
کہ اپنے گھر کی حفاظت خدا بھی کرتا ہے