مجروح سلطان پوری
دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے نغمہ نگار
وینکٹ پارسا
اس شعر کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ دانشور، ادیب، صحافی، سیاست داں، اکثر و بیشتر اس شعر کو استعمال کرتے رہتے ہیں۔ کبھی اپنے مریضوں کو ان کے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے تو کبھی اپنی مقبولیت کے اظہار کی خاطر اسی طرح کبھی اپنی مجبوریوں اور ضرورتوں کو بھی اس شعر کے حوالے سے اجاگر کرتے ہیں۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی شاعر کے ایک شعر نے اسے خاص و عام میں مقبول بنادیا۔ اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہو۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کئی مرتبہ اس شعر کی گونج سنائی دی۔ مجروح سلطان پوری خود ایک ترقی پسند شاعر تھے اور ترقی پسند تحریک سے یا ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے جڑے ہوئے تھے۔ انہیں ایک کٹر کمیونسٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ مجروح سلطان پوری کسی کاز کیلئے ایک باغی، ایک انقلابی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اپنے شعری سفر میں انہیں لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں و مداحوں کا ساتھ ملا جنہوں نے مجروح کے کلام کے ایک ایک لفظ ایک ایک شعر کی دل کی گہرائیوں سے داد دی۔
مجروح سلطان پوری اور ان کے کلام کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پی وی نرسمہا راؤ حکومت میں وزیر فینانس کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مجروح کے مذکورہ شعر کا استعمال کیا۔ اس سے کچھ دن قبل ہی نرسمہا راؤ حکومت نے جو اقلیت میں تھی، 1993ء میں انتہائی اہمیت کا حامل اعتماد کا ووٹ جیتا تھا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ بعد میں عہدہ وزارت اعلیٰ پر فائز ہوئے اور دس برسوں تک بہتر انداز میں ملک کی خدمات انجام دیں۔ پارلیمنٹ میں مجروح کے شعر کے ذریعہ وہ حزب اختلاف (اپوزیشن) سے یہ کہنا چاہتے تھے کہ اصلاحات سے متعلق لوگوں کی ابتداء میں مایوسی کے باوجود بعد میں لوگ آہستہ آہستہ ان اصلاحات کی خوبیوں ان کے فوائد جاننے لگے اور اصلاحات کے عمل کی رفتار تیز ہوئی۔ بہرحال توقع کے مطابق پارلیمنٹ میں مجروح کے اس شعر نے ہنگامہ کھڑا کردیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ مجروح کے شعر نے اپوزیشن کے جذبات و احساسات کو مجروح کردیا ہو۔ چونکہ یہ 1993ء میں اعتماد کا ووٹ جیتنے کے فوری بعد سنایا گیا تھا تب اس وقت لوک سبھا کے اسپیکر شیواج پاٹل نے یہ مشہور رولنگ دی تھی کہ ایک سیاسی جماعت میں پھوٹ ایک عمل مسلسل ہے۔ اسپیکر کے اس بیان پر کئی سیاسی قائدین کے ماتھوں پر شکنیں ابھر آئیں تھیں کیونکہ سیاسی طور پر یہ قابل فہم بات تھی کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ حکمراں جماعت میں شامل ہوتے ہی ہیں۔ اس طرح ان ارکان پارلیمنٹ نے اپنی پارٹی سے انحراف کرتے ہوئے نرسمہا راؤ حکومت کے کارواں کو آگے بڑھانے کو یقینی بنایا۔ مجروح سلطان پوری کے شعراء اور اسپیکر کے بیان نے اس وقت ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔
حکیم سے شاعر تک : مجروح سلطان پوری کی اترپردیش کے ضلع سلطان پور کے ایک موضع میں یکم اکتوبر 1919ء کو ابرارالحسن خان کی حیثیت سے پیدائش ہوئی۔ انہوں نے عربی، فارسی اور دینی تعلیم حاصل کی اور بعد میں طب کی تعلیم حاصل کرکے حکیم بنے اور پریکٹس بھی شروع کی۔ اگرچہ وہ ایک یونانی ڈاکٹر تھے، لیکن ان کے اندر ایک غیرمعمولی شاعر پایا جاتا تھا۔ ایسے میں انہوں نے شعر لکھنا اور کہنا شروع کیا۔ اسرارالحسن نے مجروح سلطان پوری کا تخلص اختیار کیا۔ مجروح کے معنی زخمی روح ہوتی ہے۔ اپنے تخلص میں سلطان پوری ضلع سلطان پور کے باعث جوڑ دیا کیونکہ اس وقت شعراء حضرات اپنے نام کے ساتھ اپنے آبائی مقام کا نام بھی جوڑ دیا کرتے تھے۔ ان کے قبیل کے شعراء میں ساحر لدھیانوی، شکیل بدایونی، قمر جلال آبادی، اسد بھوپالی، نقش لائل پوری اور حسرت جئے پوری شامل ہیں۔ مجروح سلطان پوری نے ہمیشہ اس امر پر اصرار کیا کہ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ پھر نغمہ نگار، وہ خود کہتے ہیں، میں ابتدائی طور پر شاعر ہوں پھر ایک نغمہ نگار۔ انہوں نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس وقت قلم اُٹھاتے ہیں جب مناسب الفاظ کا یقین ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں ’’قلم تب ہی ہاتھ میں لیتا ہوں ترتیب سے جب الفاظ سجتے ہیں‘‘۔ مجروح سلطان پوری کے مطابق شاعری میں انتخابِ الفاظ شرط اول ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک مشہو ر غزل لکھی تھی۔
جلا کہ مشعل جان ہم جنوں صفت چلے
جو گھر کو آگ لگائے وہ ہمارے ساتھ چلے
دیارِ شام نہیں منزل سحر بھی نہیں