ڈی کے سنگھ
ہندوستان میں 17 ویں انتخابات کے نتائج نے نئی حکومت تشکیل دے دی ہے اور اس نئی حکومت کیلئے داخلی اور کچھ بیرونی چیلنجز موجود ہیں جس میں سب سے بڑا چیلنج امریکہ کے دباؤکو برداشت کرتے ہوئے اپنے مفادات کا حصول ہے کیونکہ ایران کی ساتھ کشیدگی میں امریکہ ہندوستان کی حمایت کا خواہاں ہے۔ امریکہ نے یہ کہتے ہوئے ہندوستان پر دباؤ بنایا ہے کہ اس نے پلوامہ حملے کے بعد جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کے ذریعہ دہشت گرد قرار دئے جانے میں ہندوستان کا ساتھ دیا تھا لہٰذا اب وہ ایران کے معاملے میں اس کا ساتھ دے۔ہندوستان میں اب نئی حکومت بن چکی ہے اور اس کا پہلا چیلنج ایران ۔ امریکہ تنازعہ کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اٹھتے ہوئے نئے بحران سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف ہندوستان کا دورہ کر کے جا چکے ہیں۔ گزشتہ چار مہینوں میں یہ ان کا دوسرا دورہ تھا۔ اس سے پہلے ایک امریکی سفارت کار نئی دہلی میں اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کر چکا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان ایرانی تیل کی خریداری بند کردے جبکہ ایران، جس کے تیل کا ہندوستان چین کے بعد دوسرا بڑا خریدار ہے، اس کوشش میں ہے کہ ہندوستان امریکی معاشی پابندیوں سے بچتے ہوئے اس کے تیل کی خریداری جاری رکھے اورمعاملہ صرف تیل کی خریداری کا نہیں۔ ہندوستان کے اپنے سیاسی اور تجارتی مفادات ہیں جن میں ایران کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کا اولین غیر ملکی سمندری بندرگاہ ایران میں ابھی تیار ہی ہوا ہے اور صرف دو ماہ قبل وہاں سے پہلا ہندوستانی شپمنٹ افغانستان پہنچا ہے۔ چابہار کے نام سے موسوم اس بندرگاہ کے ذریعہ ہندوستان ایران اور افغانستان سمیت مرکزی ایشیا کے 6 ممالک تک براہ راست رسائی حاصل کر سکے گا اور امریکہ نے چابہار کو ایران پرعاید پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا ہے اس کے باوجود خطے میں پائی جانے والی کشیدگی سے اس کا متاثر ہوئے بغیر رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جواد ظریف سے کہا ہے کہ ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھنے کا فیصلہ انتخابات کے بعد عمل میں آنے والی حکومت کرے گی۔ اس فیصلے کی بنیاد ہندوستان کا تجارتی اور معاشی مفاد ہوگا اور انرجی سیکوریٹی ہوگی۔ سشما سوراج نے ہندوستان کی اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ معاہدے کے تمام فریق اپنے عہد پر قائم رہیں اور سارے معاملات پرامن ماحول میں بات چیت سے طے کریں۔ ہندوستان کی مشکل یہ ہے کہ ایک طرف ایران ہے جس سے اس کے روابط تاریخی ہیں جو سینکڑوں سال پر محیط ہے۔ دوسری طرف امریکہ ہے اور اس کی حلیف خلیجی ریاستیں ہیں اور ساتھ ہی اسرائیل ہے۔ہندوستان کے مفادات ان تمام ممالک سے جڑے ہوئے ہیں۔سعودی عرب ہندوستان کے لئے عراق کے بعد تیل کا دوسرا بڑا سربراہ ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات صدیوں قدیم ہیں ۔
اس کے علاوہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں میں 70 تا 80 لاکھ ہندوستانی شہری ملازمت سے جڑے ہیں۔ اسی طرح فوجی ساز و سامان اور دفاعی معاہدوں کے حوالے سے اسرائیل ہندوستان کے لئے بہت اہم ہو گیا ہے۔امریکہ نے یہ کہتے ہوئے ہندوستان پر دباؤ بنایا ہے کہ اس نے پلوامہ حملے کے بعد جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کے ذریعہ دہشت گرد قرار دئے جانے میں ہندوستان کا ساتھ دیا تھا لہٰذا اب وہ ایران کے معاملے میں اس کا ساتھ دے۔اس بحث سے قطع نظر کہ یہ دلیل کتنی صحیح یا غلط ہے، ہندوستان کے لئے امریکی مطالبہ کو نظر اندازکرنا آسان نہیں۔امریکہ ایک سوپر پاور ہے جس کا دباؤ روس، چین اور یورپ بھی محسوس کرتے ہیں۔ اپنے اسی طاقت کے بل بوتے امریکہ نے گزشتہ سال اپنے آپ کو ایران کے ساتھ 2015 میں کئے گئے معاہدے سے الگ کر لیا۔ یہ معاہدہ امریکہ کے علاوہ سلامتی کونسل کے باقی چار مستقل ارکان اور جرمنی نے مل کر ایران کے ساتھ کیا تھا جس کی رو سے اسلامی مملکت نے اپنے جوہری پروگرام پر روک لگا دی تھی لیکن ڈونالڈ ٹرمپ اس سے مطمئن نہیں۔ وہ ایران کو مزید جھکانا چاہتے ہیں، چنانچہ عہدہ صدارت سنبھالتے ہی پہلے انہوں نے اپنے یورپی حلیفوں کو قائل کرنے کی کوشش کی اور جب وہ نہیں مانے تو یکطرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا اور ایران پر ایک مرتبہ پھر پابندیاں عائد کر دیں۔ یہی نہیں امریکہ نے ہندوستان، چین اور ترکی سمیت 8 ممالک اور ان کی کمپنیوں پر حکم صادر کیا کہ ایران کے ساتھ تجارت بند کر دیں۔ اس کام کے لئے انھیں چھ ماہ کی مہلت دی جس میں مزید چھ ماہ کی توسیع کی۔ اس مہینے وہ مدت بھی ختم ہو گئی۔ امریکی اقدام کے جواب میں ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر معاہدے میں شامل دیگر فریق بھی اپنے عہد کی پاسداری سے منحرف ہوئے تو وہ اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع کر دے گا۔ ایران نے انہیں اپنا فیصلہ سنانے کے لئے 60 دن کی مہلت دی ہے۔ اگر ایران نے واقعی اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کر دیا تو وہ ساری محنت جو سلامتی کونسل کے تحت ہوئی تھی وہ رائیگاں ہوجائے گی۔ ایران پر نئی معاشی پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ نے ایران کے نیم فوجی دستہ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے جنگی طیاروں اور بحری جہازوں کو خلیج روانہ کر دیا ہے جس کے بعد خطے کے حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں 1.20 لاکھ فوج تعینات کرنے پر غور کر رہا ہے۔ ایران یہ دھمکی پہلے ہی دے چکا ہے کہ امریکی اقدامات کے خلاف خلیج عمان اور خلیج فارس کے درمیان آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔ یہ وہ راستہ ہے جہاں سے دنیا بھر میں استعمال ہونے والے تیل کا پانچواں حصہ لے جایا جاتا ہے۔خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ایک نیا موڑ اس ہفتے آیا جب متحدہ عرب امارات کی فْجیرہ امارت سے یہ خبر آئی کہ چار آئل ٹینکرز میں دھماکے ہوئے ہیں۔ ان میں سے دو ٹینکرز سعودی عرب کے تھے۔ اندیشہ ہے کہ اس کا الزام بھی ایران پر ڈالا جائے گا اور اس کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کا بہانہ تلاش کیا جائے گا۔ایران نے ان دھماکوں کے لئے امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اس کی آزادانہ تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران کا موقف ہے کہ امریکہ نے ان کشتیوں کو ایرانی سمجھ کر ان پر حملہ کیا ہے۔ جبکہ امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران اس علاقے میں جہازوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے یہ حملے کروا رہا ہے۔ اسی دوران ایک اورخبر جو مزید تشویشناک ہے۔ سعودی تیل کمپنی آرامکو جسے سیکوریٹی فراہم کرنے میں امریکہ کی خاص دلچسپی ہے اس پر بارود بردار ڈرون سے حملہ ہوا ہے۔ سعودی وزیر تیل نے کہا ہے کہ تیل نکالنے کے دو اسٹیشنوں کو نقصان پہنچا ہے۔ یمن کی حوثی ملیشیا نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس ملیشیا کو یمن اور سعودی عرب کے درمیان جاری جنگ میں ایران کی حمایت حاصل ہے۔ کشیدگی کے باوجود امریکہ اور ایران دونوں ہی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جنگ نہیں ہوگی لیکن دونوں ہی ایک دوسرے کو جنگ سے باز رہنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے روسی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر امریکی مفادات پر حملہ ہوا تو ہم یقینی طور پر اس کا مناسب انداز میں جواب دیں گے اور ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر جنگ ہوئی تو ایران کا باضابطہ وجود ختم ہوجائے گا۔ دوسری طرف ایران کے مذہبی پیشوا آیات اللہ خامنی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایرانی صدر حسن روحانی کا بیان بھی آیا ہے جس میں انہوں نے پرعزم لہجے میں کہا ہے کہ ایران کو کسی سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔جنگ ہو یہ نا ہو، خطے میں جو کشیدگی پیدا ہو چکی ہے اس کا اثر ہندوستان کی تیل کمپنیوں پر پڑنا لازمی ہے۔ پٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت نے آئل ریفائنریز کو اطمینان دلایا ہے کہ خام تیل کی فراہمی مسلسل جاری رہے گی۔ اس کام کے لئے متبادل ذریعوں سے تیل حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تیل اْسی قیمت پر مل سکے گا جس پر ایران دے رہا ہے اگر نہیں تو ہندوستانی کمپنیوں کو زیادہ خرچ کرنا ہوگا جسے وہ یقیناً عوام سے وصول کریں گی، پٹرول مہنگا ہوگا اور دیگر اشیاء بھی مہنگی ہوں گی۔