روش کمار
بی جے پی قائدین خاص کر وزیراعظم ہند مودی کی چمچہ گری اور ان کی جھوٹی تعریف و ستائش کرنے والے انہیں ایک طرح سے اوتار سمجھتے ہیں۔ خود مودی جی نے اپنی پیدائش کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کے بعد تو ان کو سب نے مان لیا ہے کہ وہ بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے تعلق سے یہاں تک کہا کہ ان کی پدائش حیاتیاتی نہیں۔ بہرحال وزیراعظم مودی کو اب اوتار قرار دیا جانا چاہئے لیکن مشکل یہ ہے کہ انہیں کس کا اوتار قرار دیا جائے۔ اسے لے کر ان کے حامیوں اور تلوے چاٹوئوں میں کہیں جنگ نہ چھڑ جائے۔ اب تو حساب رکھنا مشکل ہے کہ وزیراعظم مودی کو کتنی بار اوتار قرار دینے کی کوششیں کی جاچکی ہیں۔ اس کا حساب رکھنے کے لیے بھی کسی کیلکولیٹر کو اوتار لینا پڑے گا یہ سب کیوں کیا جارہا ہے۔ کیا اس لیے کہ جب نیتا کی شکل میں ان کا اثر گھٹنے لگ جائے تو دیوتا کی شکل میں اثر بنا رہ جائے۔ عوام کو مسلسل الجھن میں پھنساکر رکھا جارہا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران وزیراعظم مودی نے کہہ دیا کہ انہیں یقین ہے کہ ایشور نے کسی مقصد کے تحت انہیں (مودی کو) اس دنیا میں بھیجا ہے۔ لوک سبھا میں اوڈیشہ سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی پردیپ پروہت نے وزیراعظم مودی کے بارے میں کہا کہ پچھلے جنم میں وہ شیواجی تھے۔ پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک بابا ایک سنت کے حوالے سے کہا کہ ملک کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی جی ہیں۔ وہ پچھلے جنم میں مہاراج چھترپتی شیواجی تھے۔ اکٹوبر 2018ء میں مہاراشٹرا بی جے پی کے ترجمان واگھ نے مودی کو وشنو کا گیارواں اوتار قرار دیا۔ آج تک ان کے ٹیوٹر ہینڈل پر یہ پوسٹ سب سے اوپر دیکھا جاسکتا ہے۔ انہیں وزیراعظم مودی سمیت بی جے پی کے کئی لیڈر فالو کرتے ہیں۔ اب بی جے پی کے ایم پی انہیں پچھلے جنم میں شیواجی بتارہے ہیں۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ وہ وشنو کے اوتار ہیں یا پچھلے جنم میں شیواجی تھے۔ اسی بی جے پی کے دلی کے لیڈر جئے بھگوان گوئل نے جب کتاب لکھی اور اس کا نام رکھ دیا ’’آج کے شیواجی نریندر مودی‘‘ تو ہنگامہ مچ گیا۔ یہاں تک کہ بی جے پی کو اس کتاب سے دوری اختیار کرنی پڑی۔ آج کے شیواجی نریندر مودی یہ کتاب تو جنوری 2020ء میں آگئی تھی۔ بی جے پی کے دہلی دفتر میں اس کی رسم اجرائی عمل میں آئی۔ یعنی جس وقت بنگال میں ان کے رابندر ناتھ ٹیگور جیسے دکھائی دینے کا تنازعہ چل رہا تھا اس وقت بی جے پی کے لیڈر جئے بھگوان گوئل اس کتاب میں وزیراعظم مودی کا موازنہ شیواجی سے کررہے تھے۔ لیکن انہیں بھی پتہ نہیں چلا کہ وزیراعظم مودی ہی کل کے شیواجی ہیں۔ جئے بھگوان گوئل کی کتاب کے نام کو لے کر کافی برہمی کا اظہار کیا گیا جس میں شیوسینا، کانگریس اور این سی پی جیسی پارٹیوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے ہی رکن شویندر راجے بھوسلے اور اودین راجے جو شیواجی مہاراج کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اس کتاب کو واپس لینے کی مانگ کی۔ این سی پی سے چھگن بھوجپل نے مطالبہ کیا کہ اس کتاب کو واپس لیا جائے۔ آج وہی چھگن بھوجپل بی جے پی سے ہاتھ ملاچکے ہیں۔ اب کیا وہ اس بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے بیان کی مذمت کریں گے۔ اس وقت جب کتاب آئی تو تنازعہ اس قدر بڑھ گیا کہ بی جے پی کو وضاحت کرنی پڑی کہ یہ کتاب پارٹی کی جانب سے شائع نہیں کی گئی، یہ مصنف کی رائے ہے۔ پرکاش جاوڈیکر نے کہا تھا کہ شیواجی ناقابل تقابل ہے اور اس کتاب سے ہمارا لینا دینا نہیں۔ تب پھر اس کی رسم اجراء پارٹی کے دہلی دفتر میں کیوں ہوئی؟ بی جے پی ترجمان نے صاف طور پر کہا کہ ہمارا اس کتاب سے لینا دینا نہیں اور اگر اس سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہوں تو ہم اس کتاب کو واپس لے رہے ہیں۔ کتاب کا عنوان رکھدیا گیا تو اتنا وبال مچ گیا۔ لیکن اب بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ لوک سبھا میں وزیراعظم نریندر مودی کو پچھلے جنم میں شیواجی بتارہے ہیں۔ کیا اس طرح کے بیان چلتے پھرتے دے دیئے جاتے ہیں، شاید نہیں۔ جس طرح سے وزیراعظم نریندر مودی کو طرح طرح کے اوتاروں سے جوڑا گیا ہے وہ ان کی سیاست کا ہی حصہ لگتا ہے اور خود کو ایک شکتی کی شکل میں پیش کرنے کی ان کی اپنی مرضی اور بے چینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم مودی کا اس رویہ سے لی گئی یہ تصویر صرف اتفاق ہوگی، ہوسکتا ہے کہ اس کے پیچھے کافی منصوبہ بندی ہوئی ہوگی تاکہ عوام اپنے ذہنوں میں اپنے نیتا کی ایسی ہی تصویر دیکھ سکیں اور نیتا کو اس کا وارث سمجھ سکے۔ نیتا کو پتہ ہے کہ عوام کس کس کو حد سے زیادہ چاہتی ہے اب وہ ان کی شبیہہ میں ڈھل کر عوام کے درمیان آنے لگا ہے۔ وزیراعظم مودی کو لے کر بار بار طرح طرح کی باتیں سوشل میڈیا اور آئی ٹی سل کی جانب سے چلائی جاتی ہیں کہ مودی شیواجی کا ادھورا کام پورا کررہے ہیں۔ جواب میں مورخین کہتے ہیں کہ شیواجی نے کبھی مسلمانوں کو سیاسی طور پر ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی فوج میں مسلمان سپاہی بھی تھے اور جنرل بھی۔ غنیمت ہے کہ مہاراشٹرا کے کسی رکن پارلیمنٹ نے نہیں کہا کہ شیواجی نے نریندر مودی کی شکل میں دوسرا جنم لیا ہے۔ ایک بابا کے حوالے سے پردیپ پروہت نے کہہ دیا۔ اس ملک میں اتنے سارے بابا ہیں کسی نے یہ بات نہیں کی۔ وزیراعظم مودی خود کتنے بابائوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے بھی یہ بات نہیں کی۔ حال ہی میں بھاگیشور ناتھ گئے کیا اس بابا کو بھی نہیں دکھائی دیا کہ نریندر مودی پچھلے جنم میں شیواجی تھے؟ کیا تمام بابائوں میں اوتار کو دیکھنے کی طاقت نہیں ہوتی؟ کمبھ بھی گئے تھے وزیراعظم وہاں تو سارے سنتوں کا مجمع تھا کم سے کم وہیں یہ تصدیق ہوجاتی کہ مودی کس کے اوتار ہیں۔ اس جنم سے پہلے پچھلے جنم میں وہ کیا کیا تھے اوڈیشہ کے بابا نے تو کمبھ میں جمع سارے بابائوں اور سنتوں کی صلاحیتوں کو پیچھے کردیا۔ معاملہ کیا ہے؟ کیوں وزیراعظم مودی کو اوتار کی شکل میں پیش کرنے کی جلدی رہتی ہے۔ کیا بی جے پی کو اب سمجھ میں آرہا ہے کہ 15 سال کی حکمرانی میں کام سے وزیراعظم مودی کا اب بچائو نہیں کیا جاسکتا۔اس سے پہلے کہ عوام ان کے کام کا حساب مانگنے لگ جائے اپنی زندگی کی وجوہات کو سمجھ جائے اور جواب مانگنے لگ جائے آخر ہمارے ملک میں ہوکیا رہا ہے۔ بی جے پی کے ایم پی سمبت پاترا نے 2024ء لوک سبھا انتخابات سے پہلے کہہ دیا تھا کہ بھگوان جگناتھ تو خود مودی کے بھگت ہیں۔ تنازعہ کھڑا ہونا ہی تھا جب جواب نہیں ملا تو معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ سمبت پاترا نے تین دن کے لیے اپواس رکھ لیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اسی جلدی میں رام مندر کے افتتاح کے وقت بی جے پی نے ایک پوسٹر جاری کیا اس پوسٹر میں رام جی وزیراعظم نریندر مودی کی انگلی پکڑ کر جارہے ہیں کسی کا اعتماد یا مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوئے لیکن اپنی تصویروں کے ذریعہ بار بار یہ تصور عوام میں پھیلایا جارہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی دیوتائوں کے اوتار ہیں۔ رام جی ان کی انگلی پکڑ کر چل رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اتنا کافی نہیں تھا کیا ضروری تھا کہ انہیں پچھلے جنم میں شیواجی بتایا جائے۔ اسے روکنا ہوگا ورنہ پتہ چلا کہ وزیراعظم مودی کو پچھلے جنم میں شیواجی کے بعد مہارانا پرتاپ، ربندرناتھ ٹیگور سے لے کر بھگت سنگھ بتانے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی کہہ دے کہ نہرو بھی یہی (مودی) تھے۔ ابھی تک سردار پٹیل پر دعوی نہیں ہوا، فوراً ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو عجیب سا ہوتا جارہا ہے اور جب یہ اوتار ہی ہے تو ووٹ مانگنے کیوں جاتے ہیں کیا وہ ووٹ مانگنے والے پہلے اوتار ہیں؟ اوتار کو ہر سال بجٹ پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بیرونی دورے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جادو کی چھڑی گھمائے اور پھر دیجئیسب کے گھروں میں دس دس گرام سونا اور بیرون ملکوں سے لایا گیا 15 لاکھ روپئے۔ آج کے وقت جو کچھ ہورہا ہے اس کا جواب صرف ایک بابا سے ہمیں ملتا ہے۔ برنچی بابا، راج شیکھر بسو کے ناول برنچی بابا پرستیہ جیت رے نے فلم بنائی ’’مہاپرش‘‘ برنچی بابا تم جہاں بھی ہو فوری لوٹ آئو اور پورے ملک پر چھاجائو تمہارا وقت تو اب آیا ہے۔ اس فلم میں برنچی ٹرین میں سفر کررہے ایک یاتری سے کہتا ہے کہ ایک ہاتھ کی انگلی کو گھڑی کر دوسری سمت میں گھمائو اور دوسرے ہاتھ کی انگلی کو الٹی سمت میں گھمائو اور پھر ساتھ ساتھ گھماتے رہو کبھی ایسے کبھی ویسے گمھائو لیکن یاتری نہیں کرپاتا ہے تاہم بابا کسی طرح گھماکر دکھادیتا ہے۔ چلتی ٹرین میں برنچی بابا سورج منظر عام پر لانے کا ڈرامہ کرتا ہے سورج نکلتے ہیں اور اسی اتفاق کو وہ اپنا کارنامہ بتاتا ہے۔ دیکھ کر حیران وکیل اس کے قدموں میں گر پڑتا ہے۔ برنچی بابا فلم میں دعوی کرتا ہے کہ جب کاشی نہیں رہا تھا تب وہ وہاں موجود تھے۔ شنکراچاریہ سے بات چیت کا قصہ سنانے لگ جاتا ہے کہ میں نے شنکر سے کہہ دیا کہ سچ بات کو لے کر جو کرنا ہے کیجئے لیکن یاد رکھئے گا کہ آپ کی بات کو بھی کاٹنے والا آئے گا اور اس ملک میں مذہب کو لے کر روز فٹ بال کھیلا جائے گا۔ فلم میں جو کچھ دکھایا گیا وہ کتنا صحیح ثابت ہورہا ہے۔ ہر دن مذہب کو لے کر فٹبال کا میچ کہیں نہ کہیں کھیلا جارہا ہے۔ کبھی سنبھل میں تو کبھی ناگپور میں۔ آپ اس فلم کو ضرور دیکھئے۔ طرح طرح کے بابائوں کے پیچھے جاتے ہجوم سے لے کر نریندر مودی کو اوتار قرار دینے کی بے چینی کا کھیل آپ سمجھ جائیں گے۔ برنچی بابا فلم میں دعوی کرتا ہے کہ میں وقت کے پار ہوں کسی ڈور سے بندھا ہوا نہیں ہوں۔ گریٹ برنچی یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے پلیٹو سے بحث کی ہے جس کی پیدائش 400 قبل مسیح میں ہوئی۔ عیسیٰ اور گوتم بدھ سے نام لے کر باتیں کرتا تھا۔ البرٹ آئنسٹائن کو E-mc2 سکھایا ہے۔ برنچی اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ منو اور پراشا منی کو بھی جانتا ہے۔ بھاگیرت کو بھی جانتا ہے۔ ہر کسی کو جانتا ہے۔ یہاں تک کہ Neolythicman کو بھی جانتا ہے۔ فلم برنچی بابا 1965 ء میں بنائی گئی تھی۔