وزارت فینانس کی مشاورتی کمیٹی کا اجلاس اور حقیقت

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

جاریہ ماہ کی 19 تاریخ کو مرکزی وزارت مالیہ (منسٹری آف فینانس) نے وزارت کی مشاورتی کمیٹی کا ایک اجلاس طلب کیا۔ اس اجلاس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اس قسم کے اجلاس شاذ و نادر ہی طلب کئے جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جون 2024 میں 18 ویں لوک سبھا کے وجود میں آنے کے بعد سے وزارت فینانس کی مشاورتی کمیٹی کا یہ پہلا اجلاس تھا۔ آپ کو بتادیں کہ مذکورہ مشاورتی کمیٹی میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان کو نمائندگی دی گئی اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس میں نمائندگی دی گئی، اگر حکومت ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے اس کے استعمال کا ارادہ رکھتی ہے تو یہ کارآمد میکانیزم ہوگا۔ واضح رہے کہ وزیر فینانس کی صدارت میں یہ اجلاس منعقد ہوا۔ 19 جون 2025 کو منعقد کیا گیا یہ مشاورتی اجلاس بہت ہی رسمی رہا جس میں چیف اکنامک اڈوائزر (CEA) نے 19 سلائیڈس پاور پوائنٹ پرزنٹیشن (PPT) کے ذریعہ اقتصادی حالت پر روشنی ڈالی جبکہ کمیٹی کے ارکان کو بھی اپنے تبصرے اور مشاہدات پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ معتمد فینانس نے خلاصہ پیش کیا لیکن ارکان کے تبصروں و مشاہدات کا کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی کوئی وضاحت پیش کی جبکہ وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے اختتامی کلمات ادا کئے اجلاس میں کوئی ایسا مسئلہ سنائی نہیں دیا جس پر مشاورت کی گئی ہو ایسے میں وزارت فینانس کے مذکورہ اجلاس کو مشاورتی کہنا مشکل ہے۔ اچھی بات یہ رہی کہ اپنی پرزنٹیشن کے 19 سلائیڈس کے ذریعہ ہمارے چیف اکنامک اڈوائزر نے ذیل میں دیئے جارہے چار نکات پر تجاویز اور مشورے طلب کئے۔ ارکان سے کہا گیا کہ آپ یہ مشورہ دیں یا تجاویز پیش کریں کہ زرعی پیداوار میں مزید کیسے بہتری لائی جائے، تابع بوجھ بالخصوص صنعتوں پر عائد اس بوجھ کو کم کرنے کے ایجنڈہ پر بھی اپنی تجاویز پیش کریں۔ مصنوعی ذہانت اور ٹکنالوجی سے جڑی رکاوٹوں کو دور کرنے یا ان سے نمٹنے کی مہارتوں کو تربیت کیسے فراہم کی جائے اس تعلق سے بھی تجاویز اور مشورے طلب کئے گئے۔ آخری نکتہ جس کے تعلق سے تجاویز طلب کی گئیں وہ یہ تھا کہ معیشت کی تشکیل میں کس طرح تیزی لائی جائے یعنی پیشرفت کو یقینی بنایا جائے۔ راقم اجلاس میں فوری طور پر تجاویز دینے کے موڈ میں نہیں تھا اور بعد میں مذکورہ چار نکات پر غور کیا اور تجاویز پیش کی۔ مثال کے طور پر ملک میں زرعی پیداوار کو مزید بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات کئے جانے چاہئے۔ آپ کو بتادوں کہ میٹنگ میں جو سلائیڈس پیش کئے گئے ان میں سے ایک سلائیڈ میں ایم ایس پی، پی ایم، کسان، پی ایم فصل بیمہ، کے سی سی، e-NAM اور فوڈ پارکس کے حوالے دیئے گئے یہ تمام اقدامات کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے اور پیداوار کو بڑھانے کے لئے ہیں جبکہ دوسرے سلائیڈ میں ’’نئے دور کے کسانوں‘‘ سے متعلق بات کی گئی ہے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ویسے بھی آج کل کسانوں سے لے کر حکومتیں اور سرکاری عہدہ دار یہ دیکھ رہے ہیں کہ فی ایکڑ زرعی اراضی میں کی جانے والی کاشت کے ذریعہ کتنی پیداوار ہو رہی ہے۔ بہرحال اس سلائیڈ کے ذریعہ یہ بتایا گیا کہ 2013-14 اور 2023-24 کے درمیان فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ دوگنے ہندسوں Double Digit میں رہا۔ اگر دیکھا جائے تو 1965 سے لیکر اب تک ہر دہائی میں پیداوار میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے لیکن پیداوار یا Productivity کا موازنہ یا تقابل عالمی معیارات سے کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں راقم آپ کو بتاتا ہے کہ ہمارے ملک میں یوروپی یونین کے ملکوں کے ساتھ ساتھ چین، امریکہ اور برازیل کے مقابل گیہوں، چاول، مکئی، نیشکر (گنا) اور کاٹن کی پیداوار فی ہیکٹر کتنے کیلو گرام رہی، ساتھ ہی اوسط پیداوار کتنی رہی اور بہترین پیداوار (زیادہ سے زیادہ) کتنی رہی۔ ہندوستان میں گیہوں کی اوسط پیداوار فی ہیکٹر 3559 کیلو گرام اور بہترین پیداوار 5045 کیلو گرام رہی جبکہ عالمی اوسط کی بات کی جائے تو یہ 3548 کیلو گرام فی ہیکٹر رہی جب ہم یوروپی یونین کے ملکوں اور مصر میں فی ہیکٹر اراضی پر گیہوں کی اوسط پیداوار اور بہترین پیداوار کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بالترتیب 6500 اور 7700 کیلو گرام رہی۔ اب بات کرتے ہیں چاول کی پیداوار کی۔ ہمارے ملک میں فی ہیکٹر زرعی اراضی پر چاول کی اوسط پیداوار 2882 اور بہترین پیداوار (زیادہ سے زیادہ) 4516 کیلو گرام رہی جبکہ چاول کی فی ہیکٹر پر پیداوار کا عالمی اوسط 4700 کیلو گرام ہے۔ چین میں فی ہیکٹر اراضی پر 6500 کیلو گرام چاول کی پیداوار ہوتی ہے۔ اب بات کرتے ہیں مکئی کی ہندوستان میں فی ہیکٹر اراضی پر مکئی کی اوسطاً پیداوار 3351 کیلو گرام اور بہتر پیداوار 6239 کیلو گرام ہے جبکہ مکئی کی پیداوار کا عالمی اوسط 5824 کیلو گرام ہے۔ امریکہ میں فی ہیکٹر چاول کی پیداوار دیکھتے ہیں تو وہاں ایک ہیکٹر اراضی پر 10532 کیلو مکئی کی پیداوار ہوتی ہے۔ اب چلتے ہیں نیشکر کی طرف۔ ہمارے ملک میں فی ہیکٹر گنے کی اوسط پیداوار 84906 کیلو گرام اور بہتر پیداوار فی ہیکٹر 105000 کیلو گرام ہے۔ اس کے برعکس گنے کی عالمی اوسط پیداوار 7500 کیلو گرام رہی۔ برازیل میں گنے کی فی ہیکٹر پیداوار 75000 کیلو گرام ہے۔ اب کاٹن کی پیداوار کی بات کرتے ہیں، ہندوستان میں فی ہیکٹر اراضی پر کاٹن کی اوسط پیداوار443 کیلو گرام اور بہتر پیداوار فی ہیکٹر 602 کیلو گرام ہے۔ عالمی سطح پر کاٹن کی اوسط پیداوار 1040 کیلو گرام درج کی گئی اور چین میں یہ فی ہیکٹر اراضی پر یہ کاٹن کی پیداوار کا اوسط 2252 کیلو گرام درج کیا گیا ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2014-15 کے بعد مودی حکومت SEBT، RBI ، منسٹری آف کمپنی فایئرس، منسٹری آف کامرس، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ، یو جی سی اور کسی بھی دوسری وزارتوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا ہے اور اس ضمن میں ہزاروں صفحات پر مشتمل قوانین و ضوابط متعارف کرواچکی ہے جبکہ جی ایس ٹی کے قوانین نے کاروبار؍ تجارتی اداروں پر مزید بوجھ ڈالا ہے اور جی ایس ٹی کی اعلیٰ شرحیں بدترین ہیں اور انکم ٹیکس کسٹمز ڈی جی ایف ٹی اور جی ایس ٹی محکمہ جات قوانین کا دھڑا دھڑ اعلان کرتے جارہے ہیں۔