رامچندر گوہا
نریندر مودی کی بحیثیت وزیراعظم پہلی میعاد اور پھر ان کی دوسری میعاد کے دوران حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے اور حکومت کی تعریف و ستائش کرنے والوں نے یہ دعویٰ کیاکہ ہندوستان وشوا گرو بننے کیلئے تیار ہے حالانکہ ہندوستان ہمیشہ عالمی سطح پر ایک علیحدہ اور منفرد شناخت کا حامل رہا۔ یہاں کی تہذیب، یہاں کی روایات اور اس سرزمین کے دامن میں پائے جانے والے علمی گوہر نایاب (علمی شخصیتوں کے کارنامے چاہے وہ ریاضی داں ہوں یا پھر سائنسی و سماجی علوم کے ماہرین سب کے سب نے عالمی سطح پر ہندوستان کو ایک بلند مقام عطا کیا)۔ ہمارے ملک کی تہذیبی گہرائی، اس کی فلسفیانہ روایات اور ہمارے ملک کی مخصوص روحانی طریقوں اور ثقافت کی جب بات آتی ہے تو ہمارے وطن عزیز کو مقام اوّل پر رکھا جاتا ہے۔ اب ہندوستان کی اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کامیابی سے ہماری عالمی قیادت پوری طرح یقینی تھی۔ جہاں تک بھکتوں کے دعوؤں کا سوال ہے وہ پوری شدت کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تھے۔ یہ دعوے صرف ہندوستان کے لئے ہی نہیں تھے بلکہ خود نریندر مودی کے لئے تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ (ان کے بھکت کہتے ہیں) وہ دنیا کی قیادت کررہے ہیں۔ اس ضمن میں آپ نے اور ہم سب نے G-20 سربراہ اجلاس کے دوران ہیرا پھیری اور توڑ مروڑ کر پیش کی گئیں تصاویر کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ توڑ مروڑ کر منظر عام پر لائی گئیں ان تصاویر میں ہمارے وزیراعظم دوسرے عالمی قائدین کے آگے دکھائی دیئے۔ ان تصاویر کو دیکھنے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ان عالمی قائدین کی بھی قیادت کررہے ہوں۔ بیرونی ملکوں میں منعقدہ G-20 سربراہ اجلاسوں میں ایک عظیم الشان عمارت کی سیڑھیوں سے امریکی، فرانسیسی صدور اور برطانوی وزیراعظم وغیرہ کے ساتھ مودی کو اُترتے ہوئے بھی دکھایا گیا اور سب کے سب بڑی فرمانبرداری کے ساتھ (اگر احترام کے ساتھ نہیں) جیسے وہ مودی جی کے نقش قدم پر چل رہے ہوں۔ اس قسم کا پروپگنڈہ تو بہت کیا گیا لیکن اس کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا۔ ہاں …! ہندوستان میں ان تصاویر اور پروپگنڈہ کے ذریعہ مودی جی کی واہ واہ کی گئی۔ بی جے پی قائدین کو ان کی تعریف و ستائش کے لئے ایک دوسرے سے کافی مسابقت کرنی پڑی۔ بہرحال جب سال 2023 ء میں ہندوستان کو G-20 کی سربراہی (قیادت) حاصل ہوئی (ویسے بھی باری باری سے یہ صدارت رکن ممالک کو حاصل ہوتی ہے) اس وقت ہمارے ایک دوست نے دہلی میٹرو ٹرین میں سفر کے دوران کسی کو یہ کہتے سنا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ مودی جی صرف ہمارے دیش کے ہی نہیں بلکہ 20 ملکوں کے وزیراعظم ہیں۔ جیسا کہ ایسا ہوتا ہے۔ اسی دوران ایک ہی وقت میں حکمراں جماعت کے پروپگنڈہ کی دنیا میں ایک لطیف تبدیلی ظاہر ہونی شروع ہوئی اور یہ کہا جارہا ہے کہ ہندوستان وشوا مترا (سب کا دوست ہے) حالانکہ پہلی اور دوسری میعاد کے دوران مودی جی کے بھکتوں نے ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے اور کہنے لگے کہ ہندوستان وشوا گرو بن گیا ہے۔ تاہم جب وشوا گرو کے بجائے وشوا مترا کا نعرہ استعمال کیا جانے لگا تب اس تبدیلی سے مودی حکومت میں عزائم کے فقدان کا رجحان نظر آیا اور یہ واضح ہونے لگا کہ یہ حکومت اور اس کو چلانے والے بلند بانگ دعوے تو کرتے ہیں لیکن ان میں عزائم اور حوصلوں کی کمی ہے۔ ہندوستان دنیا کو ابھی تک سکھانے کے موقف میں نہیں ہے لیکن اسے دنیا کے ہر ملک سے دوستی کرنے اور اُس دوستی کو نبھانے کیلئے منفرد مقام حاصل ہے۔ مودی حکومت کے موقف میں اچانک یہ تبدیلی کیوں آئی۔ اس نے وشوا گرو ہونے کا دعویٰ ترک کرکے وشوا مترا کا نعرہ لگانا شروع کیوں کیا۔ اس تعلق سے کافی قیاس آرائیاں بھی کی گئیں۔ دہلی میٹرو میں مودی اور ان کی حکومت کے بھولے بھالے بھکت کے برعکس حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے اس کے ہر قدم کی تعریف کرنے والوں کو یہ اچھی طرح پتہ تھا کہ ہندوستان کی G-20 صدارت پوری طرح عارضی ہے اور بہت جلد اس کی میعاد ختم ہوجائے گی۔ انھیں شائد اس بات کا بھی اندازہ ہو کہ ہماری معیشت سے متعلق عوام نے جو اُمیدیں اور توقعات وابستہ کی ہیں حکومت ان توقعات پر پوری نہ اُتری اور جس کے نتیجہ میں یا پھر ہماری سرحدوں پر چین جس طرح بڑی آسانی کے ساتھ دراندازی کررہا ہے اور اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ وزیراعظم چین کی مسلسل دراندازی پر کچھ بولنے سے کترا رہے ہوں تو ان حالات میں عالمی قائد سے متعلق ہمارے دعوے کھوکھلے ہوگئے۔ بہرحال بی جے پی اور مودی جی کے بھکتوں کے دعوے میں قابل لحاظ تبدیلی آئی ہے ویسے بھی بھکتوں کی دنیا ہی الگ ہوتی ہے ان کی سوچ و فکر بھی مختلف ہوتی ہے بلکہ عام آدمی سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں اور ان کا یہ ماننا ہے کہ دور قدیم کے ہندوؤں نے طیاروں کے ساتھ ساتھ پلاسٹک سرجری کی ایجاد کی۔ یہ آئیڈیا کے ہندوستان پہلے ہی سے وشوا گرو تھا بہت جلد وشوا گرو بنے گا ابھی موجود ہے لیکن حکمراں جماعت کے بہت زیادہ حقیقت پسندانہ اور سیاسی طور پر زیادہ نمایاں طبقہ میں وشوا مترا کی اصطلاح اکثر استعمال ہورہی ہے لیکن حالیہ عرصہ کے دوران بنگلہ دیش میں جو بحران پیدا ہوا اس کے پیش نظر ایسا وقت آگیا ہے کہ وشوا مترا جیسی اصطلاح بھی ترک کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ہمارے انتہائی قریبی پڑوسی ملک کے شہری (بنگلہ دیشی) ہندوستان کو ایک قابل بھروسہ و قابل اعتماد دوست نہیں مانتے۔ بنگلہ دیشی شہریوں کی اکثریت ہندوستان کی نیت و ارادوں کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھتی ہے۔