محمد نوشاد خاں
وقف ( ترمیمی ) بل 2024 کو اپوزیشن کی شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا، مسلم قائدین اور مہذب سماج کے گروپوں اور ناقدین نے پورے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ بل اقلیتوں کے ان بنیادی حقوق کو پامال کرتا ہے جس کی ضمانت و طمانیت دستور میں دی گئی ہے۔ خاص طور پر اس بل کے ذریعہ دستور کی دفعہ 26 کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنا ہے۔ یہ ( دفعہ 26) ایک ایسی دفعہ ہے جو مذہبی اقلیتوں یا برادریوں کو اپنے اُمور کی دیکھ بھال کی آزادی عطا کرتی ہے۔ حکومت کے تیار کردہ وقف ترمیمی ایکٹ میں اس نے وقف بورڈس اور سنٹرل وقف کونسل میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کی گنجائش فراہم کی ہے جسے مسلمانوں کے اُمور میں غیر ضروری مداخلت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے وقف اداروں کا مذہبی کردار خطرہ میں پڑ گیا ہے حالانکہ وقف اداروں کا مقصد اسلامی خیراتی مقاصد کی تکمیل ہے۔ اکثر لوگ اس لئے اپنی جائیدادیں اور اپنی املاک وقف کرجاتے ہیں تاکہ ان جائیدادوں سے غریب مسلمانوں، یتیم و یسیر بچے ، بچیوں، بیواؤں، مطلقہ خواتین، لاولد جوڑوں، بے سہارا لوگوں اور غریب و ہونہار طلبہ کی مدد کی جاسکے۔
بہر حال حکومت نے اپوزیشن کی شدید مخالفت کو دیکھتے ہوئے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی اور خود اس کمیٹی کے بعض ارکان نے کمیٹی کے طریقہ کار کو شدید نکتہ چینی کا نشانہ بناتے ہوئے آمرانہ اور دستوری و جمہوری اُصولوں کے مغائر قرار دیا۔ ان ارکان کا استدلال تھا کہ دستور میں مسلمانوں کو دیئے گئے بنیادی حقوق کو دبانے، ان کی پامالی کی بجائے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا کردار اصلاحات پسند ہونا چاہیئے تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔ پروفیسر جگموہن سنگھ کنوینر سکھ پرسنل لا بورڈ کا کہنا ہے کہ وقف ترمیمی بل کو فوری واپس لیا جانا چاہیئے، مذہبی اُمور میں حکومت کی مداخلت قابل مذمت ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، اس بل نے نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ دوسری مذہبی اقلیتوں بشمول سکھوں کیلئے سنگین سوالات پیدا کردیئے ہیں اور ان میں تشویش کی لہر دوڑادی ہے۔ پروفیسر جگموہن مزید کہتے ہیں : ’’ میرا یہ پختہ ایقان ہے کہ مساوات اور مذہبی رواداری کے اُصولوں کی بنیاد پر ہمیں ان دفعات کی شدت کے ساتھ مخالفت کرنا ضروری ہے جو ریاست ( حکومت ) کو مذہبی انڈومنٹس پر غیر مناسب کنٹرول کی اجازت دیتی ہیں، اوقافی اُمور میں غیرمسلموں کی مداخلت اور وہ بھی انتظامی عہدہ داروں کے ذریعہ جیسا کہ ترامیم میں تجاویز پیش کی گئی ہیں‘ اوقافی جائیدادوں و املاک کیلئے سنگین خطرات پیدا کرتی ہیں‘ حکومت اس بل کے ذریعہ اوقافی جائیدادوں کو باآسانی ہڑپ سکتی ہے، موقوفہ اراضیات کو سرکاری اراضیات قرار دے سکتی ہے۔ یہ بل حکومت کی من مانی اور دستور کی دفعہ 14 کی سنگین خلاف ورزی ہے جو قانون کی نظر میں سب کو یکساں قرار دیتی ہے۔
سپریم کورٹ میں منیکا گاندھی بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمہ میں صاف طور پر کہا گیا کہ ایسے حکومتی اقدامات جن کا ان کے مطلوبہ مقاصد کا کوئی معقول تعلق نہیں ہے وہ غیر دستوری ہیں۔ وقف بورڈ پر ان کی املاک کو چھیننے کیلئے غیر تصدیق شدہ الزامات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ریاست دستوری دفعات14 ،19 اور 21 کے ذریعہ فراہم کردہ حقوق کی سنگین پامالی کررہی ہے۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ محمد جاوید کا اس بارے میں کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی مخالفت کی اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی مخالفت جاری رکھیں گے۔ ایک اور کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران مسعود کے مطابق ہم پارلیمنٹ سے لیکر سڑکوں پر حکومت کے متعصبانہ و جانبدارانہ اقدامات کے خلاف لڑیں گے، ہم نے سختی کے ساتھ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی مخالفت کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وقف ترمیمی بل کو قانون بننے نہیں دیں گے ( لیکن پارلیمنٹ میں نہ صرف مودی حکومت نے وقف ترمیمی قانون پیش کیا بلکہ اسے منظور بھی کروایا۔وقف ترمیمی بل کی تائید و حمایت میں 288 اور مخالفت میں 232 ارکان نے اپنی رائے دی ) ظاہری طور پر یہ بل ریاستی وقف بورڈس کی اتھارٹی میں اضافہ کرتا ہے۔ وقف املاک کی حیثیت کا تعین‘ قبضوں کو ہٹانا ہے اور وقف اثاثوں کو رجسٹرڈ کرنے جیسی ذمہ داریاں ریوینیو حکام کو منتقل کردی گئی ہیں جس سے نگرانی اور وقف کے مفادات کے تحفظ کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بل میں قانون کا نام ’’ دی وقف ایکٹ 1995 ‘‘ سے تبدیل کرکے ’’ یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ امپاورمنٹ ایفیشینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1995 ‘‘ رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ مذکورہ نام تبدیل کرنا غیرضروری معلوم ہوتا ہے اور یہ اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش کے سواء کچھ نہیں۔
اب اس بل کے ذریعہ یا قانون کے ذریعہ وقف بورڈس میں غیر مسلموں کو نامزد کیا جاسکے گا، اس میں نئی دفعات (3A,3B,3C) متعارف کرائی گئیں جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وقف کی نوعیت اور وقف انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں‘ اس کی سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس کی دفعات میںایسی دفعہ بھی شامل ہے جو سنٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کو شامل کرنے کی اجازت دیتی ہے جس پر ناقدین کہتے ہیں کہ حکومت کے اس اقدام سے دستور کی دفعات 25 اور 26 کی خلاف ورزی ہوتی ہے، یہ ایسی دفعات ہیں جو مذہبی و لسانی اقلیتوں کو اپنے مذہبی اُمور کے نظم کی اجازت اور طمانیت دیتی ہیں۔ وقف کونسل کو خاص طور پر اسلامی فقہ کے تحت اسلامی خیراتی اوقاف کا انتظام کرنے کا کام تفویض کیا گیا ہے لیکن غیر مسلم ارکان کو اجازت دینا اس کی مذہبی خصوصیت کو کم کرنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے خاص طور پر جب ہندو مندروں، سکھوں کے گُردواروں اور عیسائی گرجا گھروں کے مقابلہ میں جو خصوصی مذہبی انتظام رکھتے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر یہ سمجھا جانے والا امتیاز دفعہ 14 اور 15(1) کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ دفعات مذہبی اقلیتوں کو مذہبی آزادی فراہم کرتی ہیں۔ اس بل کا ایک اور متنازع پہلو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو متنازعہ وقف جائیدادوں کے تعین کا اختیار ہے ایسے میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے عدالتی فیصلوں کو نظرانداز کرکے من مانی کرسکتے ہیں، اس اقدام سے بھی وقف بورڈس اور اپنے مذہبی اُمور کے نظم کا مسلمانوں کو جو اختیار ہے وہ اس سے محروم ہوجائیں گے اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو مرکزی اختیار دینا حقیقت میں دستور کی دفعہ 26 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ رتی لال گاندھی بمقابلہ اسٹیٹ آف بمبئی (1950) مقدمہ میں سپریم کورٹ نے یہ رولنگ دی تھی کہ مذہبی اُمور کے نظم میں ریاست کی مداخلت کو مناسب طور پر اس چیز کو پورا کرنا چاہیئے جو یہ بل بیورو کریٹس کو، کنٹرول کی منتقلی کے ذریعہ نظرانداز کرتا ہے، یہ بل ارباب اختیار کو حق دیتا ہے ان کے ادارے ریاست کی مداخلت سے آزاد ہیں۔ ناگروال نے اس بل پر عدلیہ کی خاموشی کو یکسر تشویش کا اظہار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والی قانون سازی کو ختم کرے۔ وقف بل کی بہت سی دفعات قانون کی حکمرانی، دستوری سیکولرازم، اقلیتوں کے حقوق (1992)سے متعلق بین الاقوامی قراردادوں جیسے اقوام متحدہ کے اعلامیہ کی خلاف ورزی کرتی ہے ایسے میں عدلیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقننہ کو قوانین کی ان خلاف ورزیوں کے ارتکاب سے روکے۔
اگردیکھا جائے تو وقف ترمیمی بل ہندوستانی فریم ورک کی تباہی و بربادی کی طرف اشارہ ہے۔ اقلیتی حقوق کو گھٹاکر اور اکثریتی کنٹرول کو بڑھا کر یہ بل مساوات اور مذہبی آزادی کے دستوری اُصولوں کے متضاد ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ حکومت کو یہ بل واپس لینا چاہیئے اور عدلیہ کو اقلیتوں کے حقوق اور دستوری سالمیت کی برقراری کیلئے اپنے فرائض کی تکمیل کرنا بھی ضروری ہے۔ جہاں تک دفعہ 26 کا سوال ہے دفعہ 26A,26B,26C اور D میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مذہبی فرقے اپنے معاملات خود چلاسکتے ہیں‘ اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادوں کا انتظام خود کرسکتے ہیں۔