وقف ترمیمی قانون کے خلاف سماعت

   

ڈاکٹر نکیش کماری، وکیل، سپریم کورٹ آف انڈیا
سپریم کورٹ میں موجود ایک خاتون وکیل نے کیا دیکھا؟
’’ میں اندر تھی… آج سپریم کورٹ میں صرف قانون نہیں، ایک قوم کھڑی تھی‘‘پاؤں رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ میں یہ بات یوں نہیں کہہ رہی جیسے ہجوم کی کوئی خبر دے رہی ہوں۔میں خود اندر تھی۔ کورٹ نمبر 1 میں اور میں یہ گواہی اپنے وجود سے دے رہی ہوں۔ 200 سے زیادہ وکیل اور درخواست گزار اندر موجود تھے۔ اور جتنے اندر تھے، اتنے ہی باہر انتظار میں تھے۔کچھ بیٹھے تھے، کچھ کھڑے تھے، کمر دیوار سے ٹکائے، خاموش،کوئی تماشہ دیکھنے نہیں آیا تھا۔ہر کوئی جانتا تھا کہ آج جو ہو رہا ہے، وہ کسی عام دن جیسا نہیں ہے۔ یہ خود وکیلوں نے کہا۔ دو بج کر آٹھ منٹ پر سماعت شروع ہوئی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنّہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس کے وی ویشواناتھن بینچ پر موجود تھے۔ پہلا سوال چیف جسٹس کھنّہ نے ہی اٹھایا:
’’کیا یہ معاملہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہائی کورٹس کو بھیجا جائے؟ ہر ریاست کی صورتِحال مختلف ہے، تو کیا ریاست وار سماعت ہونی چاہیے؟‘‘
یہ ایک معقول سوال تھا ؟
مگر اس کی زمین زہر سے بھری تھی ،اگر یہ مقدمہ ہائی کورٹس کو بھیج دیا جاتا، تو یہ لڑائی بٹ جاتی۔ ایک آواز جو آج عدالت میں ایک ساتھ گونج رہی تھی ،73 درخواستیں جو ایک طاقت بنی تھیں،وہ سب ٹکڑوں میں بٹ جاتیںاور پھر کپِل سِبل اٹھے۔کھڑے ہوئے اور خاموشی ٹوٹ گئی۔’’مائی لارڈ، یہ وقف کی زمین کا معاملہ نہیں ہے۔یہ اسلام کی روح کی شناخت کا معاملہ ہے۔یہ ہماری مساجد، قبرستانوں، مدارس کی حفاظت کا معاملہ ہے۔اور سب سے اہم بات ،یہ بھارت کے آئین کی دفعات 25، 26، 29 اور 30 کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ اسے ہائی کورٹ کو دے کر ٹکڑے نہ کیجیے۔ یہ انصاف کا معاملہ ہے، اسے یہیں سنیے، یہیں فیصلہ کیجیے۔” پوری عدالت میں سکوت تھا۔مگر اس سکوت میں ایک تحریر لکھی جا رہی تھی۔ پھر بحث آئی سب سے متنازع حصے پر ،دفعہ 3(r): وقف بائے یوزر۔ جس زمین کو صدیوں سے لوگ نماز پڑھنے، دعا کرنے، تعزیت پڑھنے، قبریں بنانے کیلئے استعمال کرتے آ رہے ہیں،اگر وہ حکومت کے ریکارڈ میں نہیں ہے، تو کیا اب وہ وقف نہیں مانی جائے گی؟’’کیا تاریخ کو صرف ریکارڈ کی محتاج بنا دیا جائے گا؟‘‘’’کیا دعاؤں کی کوئی دستاویز ہوتا ہے، مائی لارڈ؟‘‘’’کیا مزار پر چادر چڑھانے کا کوئی رجسٹریشن ہوتا ہے؟‘‘ سِبل کی آواز بھاری تھی… مگر رکی نہیں۔ پھر دفعہ 107 کا معاملہ آیا۔ حکومت کہہ رہی ہے، اگر کوئی 30 سال سے کسی وقف زمین پر قبضہ کئے بیٹھا ہے، تو اب اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ ’’تو کیا اب قبضہ ہی انصاف ہے؟‘‘ ’’کیا جو مسجد کل تک آپ کی تھی…آج اگر کوئی اسے دبا لے، اور آپ خاموش رہیں…تو کیا وہ مسجد اب آپ کی نہیں؟‘‘ ’’کیا انصاف کی بھی کوئی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے، مائی لارڈ؟‘‘
بینچ نے کہا: ’’ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ دفعات کو لے کر آئینی تشویش ہے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہر معاملے کو ’’ورثہ‘‘ نہ مان لیا جائے۔”
کپل سِبل بولے: ’’قبرستان، مسجد، مدرسہ… یہ ورثہ نہیں، ذمہ داری ہیں۔ یہ صرف عمارتیں نہیں، یہ ہماری عبادت ہیں۔
اور ان پر ہمارا حق ہے… یہ ہم سے کوئی کلکٹر یا رجسٹرار نہیں چھین سکتا۔”
میں آج اندر تھی۔ میں نے صرف بحث نہیں سنی …میں نے انصاف کی سانسیں سنی۔ میں نے ان آنکھوں کو دیکھا … جو بینچ کی طرف نہیں، خدا کی طرف دیکھ رہی تھیں… کہ آج، انصاف اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے ان ہاتھوں کو دیکھا جو عدالت کی دیوار کو چھو رہے تھے…
جیسے کہہ رہے ہوں: ’’بس ہمیں سنا جائے …اور صحیح فیصلہ ہو جائے۔‘‘ میں آج وہاں گواہ بن کر کھڑی تھی۔
میں نے دیکھا کہ مسلمان ڈرنے نہیں آیا تھا… وہ لڑنے آیا تھا… دستاویزات سے، دلیلوں سے، آئین سے۔ اور میں آج یہ تحریر اس لیے لکھ رہی ہوں… کیوں کہ کل جب کوئی یہ کہے گا کہ ’’ یہ صرف ایک کیس تھا‘‘ … تو میرا یہ لکھا ہوا کہے گا… ’’ نہیں۔ یہ اْس قوم کی موجودگی تھی… جو کبھی عدالتوں سے نہیں ڈرتی،
بلکہ وہیں اپنا حق لیتی ہے۔‘‘