مسٹر پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیرداخلہ و فینانس
آج کل ملک میں ون نیشن ون الیکشن سے متعلق رام ناتھ کوئند پیانل کی تجویز کے چرچے ہیں۔ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلی کے ایک ساتھ انتخابات کروانے کی اس تجویز کو مرکزی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور کہا جارہا ہے کہ بہت جلد لوک سبھا میں ون نیشن ون الیکشن کا بل پیش کیا جائے گا۔ بہرحال ایک ساتھ انتخابات کے حوالہ سے اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل میں حکومت کی حقیقت نیت و ارادے ٹرمس ان ریفرنس سے کھل کر سامنے آگئی۔ آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پہلے TOR ٹرمس آف ریفرنس نے مذکورہ کمیٹی سے کہاکہ وہ تمام انتخابات کے ایک ساتھ انعقاد کی تجویز کا نہ صرف اچھی طرح جائزہ لے بلکہ ایک ساتھ انتخابات منعقد کرنے سفارشات بھی پیش کرے۔ چنانچہ رام ناتھ کوئند کی زیرقیادت کمیٹی نے حکومت کو جو تجاویز اور سفارشات پیش کی اس میں باضابطہ یہ کہا گیا کہ ملک کی 28 ریاستوں اور تمام مرکزی زیرانتظام علاقوں میں اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کا بیک وقت انعقاد ممکن ہے۔ حالانکہ کمیٹی کے پاس بیک وقت انتخابات کرانے کے آئیڈیا کے خلاف کوئی سفارش کرنے کا مینڈیٹ نہیں تھا۔
اگر ہم ون نیشن ون الیکشن سے متعلق تجاویز اور سفارشات پیش کرنے کے لئے تشکیل کردہ کمیٹی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنی خود ساختہ اسٹڈی یا جائزہ میں تعصب کا مظاہرہ کیا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کمیٹی کے صدرنشین اور 8 ارکان میں صرف ایک ہی دستوری ماہر ہے۔ ایک اور رکن پارلیمانی طریقہ کار اور عمل کے ماہر ہیں۔ پارلیمانی طریقہ کار کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتے ہیں لیکن وہ قانون کی پریکٹس کرتے ہیں اور نہ ہی قانون پڑھاتے ہیں۔ اس طرح کمیٹی میں دو سیاستداں ہیں، ایک بیوروکریٹ سے سیاستداں بننے والی شخصیت بھی رکن ہے۔ کمیٹی میں تین ایسے بھی ارکان تھے جنھوں نے زندگی بھر سیول سرونٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جبکہ اس کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے سابق صدر رام ناتھ کوئند کے تقرر کا مقصد کمیٹی کو تمام کے لئے قابل قبول بنانا اور اسے ایک معتبر شکل دینا تھا۔ کمیٹی نے اس بات کی سفارش کی کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات 5 سال میں ایک مرتبہ اور بیک وقت (ایک ساتھ) منعقد کئے جانے چاہئے جہاں تک میری معلومات کا سوال ہے دنیا میں ایسا کوئی وفاقی اور جمہوری ملک نہیں ہے جہاں ون نیشن ون الیکشن کا تصور پایا جاتا ہو۔ اس معاملہ میں امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جرمنی کا موازنہ اور تقابل بھی کیا جاسکتا ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ایوان نمائندگان کے انتخابات دو برسوں میں ایک مرتبہ منعقد کئے جاتے ہیں جبکہ امریکی صدر اور صوبائی گورنروں کے انتخابات کا چار برسوں میں ایک مرتبہ انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے۔ غرض آپ کو یہ بتانا ہے کہ وہاں بھی ایک ساتھ انتخابات منعقد نہیں کئے جاتے۔ جب امریکہ جیسی بڑی جمہوریت کی بات نکل پڑی ہے تو آپ کو یہ بھی بتادیں کہ امریکی سنیٹ کے انتخابات 6 برسوں میں دو دو سال کے لئے تین مرتبہ منعقد کئے جاتے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی کی دو ریاستوں تھورنگیا اور سیاکسونی میں وہاں کی الیکشن سائکل کے مطابق الیکشن کا انعقاد عمل میں آیا اور یہ الیکشن سائکل Bundestag (نیشنل پارلیمنٹ) کے الیکشن سائکل سے مختلف تھا۔ اگر دیکھا جائے تو کوئند کمیٹی ایک ایسے خیال یا آئیڈیا کی کھوج کررہی تھی جو وفاق کا ANTITHESIS ہے۔
پارلیمانی جمہوریت : ایک پارلیمانی جمہوریت میں منتخبہ حکومت عوامی نمائندوں کو ہر روز جواب دینے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ باالفاظ دیگر پارلیمانی جمہوریت میں منتخبہ حکومت عوام اور عوامی نمائندوں کو جوابدہ ہوتی ہے اور مقننہ کی کوئی Assured Term نہیں ہوتی جبکہ سیاسی ماڈل کے انتخاب یا اس کی پسند پر قانون ساز اسمبلی میں بحث کی جاتی ہے اور دستور سازوں نے فیصلہ کن انداز میں صدارتی نظام کو مسترد کیا اور صدارتی نظام کی بجائے پارلیمانی جمہوریت کے نظام کو اپنایا کیوں کہ ان کا یہ ماننا اور ان کا یہ ایقان تھا کہ ہندوستان جیسے ایک عظیم اور متنوع ملک کے لئے پارلیمانی جمہوریت ہی موزوں ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کثرت میں وحدت کی بہترین مثال ہے۔ جہاں تک کوئند کمیٹی کی تجاویز اور سفارشات کا سوال ہے کمیٹی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ منعقد کرنے کے لئے دستور میں ترامیم کی ضرورت ہوگی چنانچہ دستور میں ترامیم کرتے ہوئے کئی دفعات 82A, 83(3), 83(4), 172(3), 172(4), 325(2), 325(3) متعارف کروائی جائیں گی۔ اس طرح دستور کی دفعہ 327 میں ترمیم کی جائے گی اور نئی دفعات اور ترامیم کے ذریعہ ہی ایک ریاستی اسمبلی اور لوک سبھا کی میعادوں کی آخری تاریخ کو ایک ہی مقرر کیا جائے گا جس کے بعد دونوں کی میعاد یعنی لوک سبھا اور اسمبلی کی میعاد ایک دن ہی ختم ہوگی۔
مثال کے طور پر اگر دستوری ترامیم نومبر ۔ ڈسمبر 2024 میں منظور کئے جاتے ہیں (جیسا کہ حکومت نے اشارہ دیا ہے اور 2029 ء میں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے انتخابات کا ایک ساتھ انعقاد عمل میں آتا ہے (اور ان اسمبلیوں کو 2025 ء 2026 ء 2027 ء اور 2028 ء (جملہ 124 اسمبلیوں) میں منتخب کیا جاتا ہے تو ان کی میعاد ایک سال تا 4 سال کم ہوگی۔ ذرا یہ تصور کیجئے کہ کسی ریاستی اسمبلی کا 2027 ء میں انتخاب عمل میں آیا یا پھر 2028 ء میں اس کے انتخابات منعقد ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی میعاد دو سال اور ایک سال ہی ہوگی ایسے میں ریاست کے عوام اور بڑی سیاسی جماعتیں اس قسم کے الیکشن کو کیوں قبول کریں گی۔ اُس وقت تو حالات بدترین رُخ اختیار کرجائیں گی جب ایک معلق اسمبلی وجود میں آئے گی یا پھر ایک منتخبہ ریاستی حکومت کو ایوان اسمبلی میں پیش کردہ تحریک عدم اعتماد میں شکست ہوجائے گی یا اس ریاست کا چیف منسٹر اپنے عہدہ سے مستعفی ہوجائے گا اور کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوجائے گی۔ اس قسم کی صورتحال میں تازہ انتخابات کرانے ہوں گے۔ ان انتخابات کا سامنا دولت مند امیدوار اور سیاسی جماعتیں ہی کرپائیں گی (اس معاملہ میں آپ الیکٹورل بانڈس کے ذریعہ ہزاروں کروڑ روپئے عطیات حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کو یاد کیجئے) یہ دولت مند سیاسی جماعتیں ہی انتخابات میں حصہ لینے کے قابل رہیں گی۔ اس طرح کی سفارشات ریاستی چیف منسٹروں کو ارکان اسمبلی کے بیجا استعمال یا پھر انہیں اپنے اشاروں پر کام کرنے پر مجبور کروانے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
کوئند کمیٹی کی سفارشات ہندوستان کی انتخابی تاریخ کی عجیب و غریب سفارشات ہیں۔ آپ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ 1951 ء اور 2021 ء کے درمیان 7 دہوں میں جو بھی انتخابات ہوئے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں، صرف دو دہوں میں عدم استحکام کے دور دیکھے گئے۔ ایک تو 1981-1990 ء اور 1991-2000 ء ہاں 1999 ء سے ہمارے ملک کی سیاست اور انتخابی سیاست میں کافی استحکام دیکھا گیا جس میں اکثر ریاستی حکومتوں / اسمبلیوں نے 5 سال کی میعاد مکمل کیں اور ان کے ملک کی معیشت پر منفی اثرات بھی مرتب نہیں ہوئے۔ یو پی اے کے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں اوسطاً معاشی نمو 7.5 فیصد رہا جبکہ این ڈی اے کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے پچھلے دس سالہ اقتدار میں معاشی شعبہ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
بہرحال کوئند کمیٹی نے یہ سمجھ لیا ہے کہ این ڈی اے حکومت پارلیمنٹ میں دستوری ترامیم بلز منظور کروالے گی، اس کا ایسا سمجھنا غلط ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن ان بلز کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے لوک سبھا میں 182 اور راجیہ میں 83 ارکان کی بہ آسانی تائید حاصل کرسکتی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ون نیشن ون الیکشن آمد کے ساتھ ہی اپنی موت آپ مرجائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں نے ون نیشن ون الیکشن کو نہ صرف ناقابل قبول بلکہ وفاقیت کو ختم کرنے والا بل قرار دیا۔