ووٹنگ ہی ذمہ داریوں کا اختتام نہیں ہے

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس
بہار کے عوام نے فیصلہ سنادیا ہے ۔ این ڈی اے کیلئے 202 نشستیں اور مہاگٹھ بندھن کیلئے 34 نشستیں دی گئی ہیں۔ تمام شہریوں کو یہ فیصلہ قبول کرنا چاہئے ۔ نئی حکومت ‘ چاہے چیف منسٹر کوئی بھی ہو ‘ ہماری نیک خواہشات کی مستحق ہے کیونکہ جو سب سے زیادہ ہماری نیک خواہشات کے مستحق ہیں وہ بہار کے عوام ہیں۔
میڈیا نے بہار انتخابات میں اپنے کوریج کے ذریعہ کوئی قابل فخر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ۔ کچھ میڈیا ادارے بشمول اخبارات اور ٹی وی چینلس بھی ‘ جنہوں نے اپنے لئے قدرے مختلف راستہ منتخب کیا تھا ‘ بھیڑ کا حصہ بن گئے ۔ میدان پر موجود رہنے والے رپورٹرس بھی ایک آواز میں بات کر رہے تھے کہ رائے دہندے ذات پات کی بنیادوں پر ووٹ کر رہے ہیں اور چیف منسٹر نتیش کمار کے خلاف کوئی مخالف حکومت لہر بھی نہیں ہے ۔ مسٹر تیجسوی یادو نے انتخابی مہم میں نئی توانائی پھونکنے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن وہ اپنے حلقہ اثر کو روایتی ووٹ بینک سے آگے نہیں لے جاسکے ۔ مسٹر نریندر مودی رائے دہندوں سے فوری خود کو جوڑنے میں کامیاب رہے ۔ مسٹر راہول گاندھی اپنے اصل نعرے ووٹ چوری اور بیروزگاری تک ہی محدود رہے اور یہی کچھ چلتا رہا ۔ نتائج ہمیںمیڈیا رپورٹس کی مدافعت کرتے نظرآتے ہیں۔ صرف نیا نعرہ دس ہزاری والا تھا ۔ 10 ہزار روپئے ہر خاندان کی ایک خاتون کے بینک کھاتے میں پولنگ سے پہلے ‘ پولنگ کے دوران اور پولنگ کے بعد منتقل کئے جاتے رہے ۔
سب سے آخری پیام : بہار کے عوام کی یادیں بہت طویل ہیں۔ انہیں مسٹر لالو پرساد یادو ( یا ان کی شریک حیات ) کا 15 سالہ دور اقتدار 1990-2005 یاد ہے ۔ اور اس کیلئے انہوں نے غیر منصفانہ طور پر تیجسوی یادو کو ذمہ دار قرار دیدیا حالانکہ جب لالو پرساد یادو کی حکومت کا زوال ہوا اس وقت تیجسوی یادو محض 16 برس کے رہے ہونگے ۔ بہار کے ووٹرس نے نتیش کمار کے 20 سالہ اقتدار کو بھی یاد رکھا تاہم ایسا لگتا ہے کہ کئی ناکامیوں کے باوجود انہیں کوئی شکایت نہیں تھی ۔
کیا بہار غریب ہے ؟ ۔ کیا وہاں وسیع تر بیروزگاری ہے ؟ ۔ کیا کروڑوں لوگ روزگار کی تلاش میں دوسری ریاستوں کو ہجرت کر رہے ہیں ؟ کیا ہمہ جہتی غربت نے سماج کے بڑے طبقات کو متاثر کیا ہے ؟ ۔ کیا تعلیم اور صحت کے شعبوں کی حالت انتہائی ابتر ہے ؟ ۔ نشہ بندی کے باوجود کیا شراب آسانی سے دستیاب ہے ؟ ۔ ان سارے سوالوں کا جواب ہاں میں ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہوسکتی کہ عوام نے اس طرح کا ووٹ کیوں دیا جیسے نتائج سامنے آئے ہیں۔ ایک کالم میں مسٹر شیکھر نے یہ جملہ تحریر کیا کہ ‘ بہار جو آج سوچتا ہے ‘ بہار نے دو دن قبل بھی وہی سوچا تھا ‘ ۔ تاہم ایسا بھلے ہی ہوسکتا ہو تاہم اس کے پس پردہ کئی بہتر وجوہات ہوسکتی ہیں جو مابعد انتخابات سرویز میں سامنے آئیں گی ۔
میں بہار کے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ چمپارن دور کے جذبہ کو بحال کریں۔ طلباء کو نااہل اساتذہ کو برداشت نہیں کرنا چاہئے ۔ نہ ہی بغیر اساتذہ ‘ بغیر لائبریریز اور بغیر لیبارٹریز والے کالجس اور اسکولس کو برداشت کرنا چاہئے ۔ نہ ہی پرچہ جات کے افشاء اور امتحانات میںبڑے پیمانے پر نقل نویسی کو اور نہ ہی الٹ پھیر والے نتائج کو برداشت کرنا چاہئے ۔ بے معنی ڈگری اور عوام کو دھوکہ دینے والے پبلک سروس رکروٹمنٹ کو بھی قبول نہیں کیا جانا چاہئے ۔ نوجوانوں کو خاموشی کے ساتھ اس بات کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے کہ ان کی ریاست میں ملازمتیں اور روزگار نہیں ہیں اور وہ طویل فاصلے تک کسی بھی روزگار کیلئے ایسی ریاست کو چلے جائیں جہاں کے لوگ ‘ زبان ‘ غذا اور کلچر ان کیلئے بالکل نئے ہوں۔ والدین اور خاندانوں کو یہ قبول نہیں کرنا چاہئے کہ خاندان کے مرد اپنے اہل خانہ کے ساتھ نہیں رہیں گے ۔ بہار کے عوام کو اپنے آبا و اجداد کی طرح نہیں رہنا چاہئے ۔
تنظیم اہمیت کی حامل ہے :یقینی طور پر اپوزیشن سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے ایک متبادل ویژن پیش کرنے اور ان میں تبدیلی کی خواہش پیدا کرنے میں ناکام رہیں ۔ مسٹر پرشانت کشور نے ایسا کیا تھا لیکن ان کے سامنے کئی طرح کی رکاوٹیں اور مشکلات تھیں۔ اگر حقیقت ہے تو ساری ذمہ داری اپوزیشن سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے ۔ صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ آپ کے پاس اہل قائدین اور وسائل موجود ہوں ۔ ان کے پاس لاکھوں کارکن میدان پر ہونے چاہئیں اور ایک مستحکم تنظیم ہونی چاہئے ۔ پارٹی کے قائدین یا پھر امیدواروں سے بھی زیادہ یہ پارٹی کی تنظیم اور میدان پر موجود رہنے والے کارکن ہی ہوتے ہیں جو انتخابات میں کامیابی دلاتے ہیں۔ ایک قاعدہ کی طرح ‘ صرف چند ایک استنی کے ساتھ ‘ ہر الیکشن کوئی ایسی ہی پارٹی یا پارٹیوں کا اتحاد ہی جیت پاتا ہے جس کی تنظیمی طاقت ہو اور جو ووٹرس کو اس بات کیلئے تیار کریں کہ ان کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا جائے ۔ نتائج کے پیش نظر یہ پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اور پھر جنتادل یو کے پاس بہار میں وہ تنظیمی طاقت موجود ہے ۔
ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے : الیکشن کمیشن آف انڈیا نے قابل اعتراض رول ادا کیا ہے ۔ بہار الیکشن سے قبل اس نے فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی ( ایس آئی آر ) کا اعلان کردیا وہ بھی صرف بہار میں۔ اس طرح ساری بحث کا رخ ہی موڑ دیا گیا ۔ رائے دہی کا تناسب اضافی محض اس لئے تھا کیونکہ فہرست رائے دہندگان میں ووٹوں کی تعداد کم ہوگئی تھی ۔ یہ ایس آئی آر کی وجہ سے تھا ۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مکھیہ منتری مہیلا روزگار یوجنا سے آنکھیں موند لی تھیں جس کا وزیر اعظم نے انتخابی تواریخ کے اعلان کے محض دس دن پہلے ہی آعاز کیا ۔ 10 ہزار روپئے کی منتقلی کا عمل انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل شروع ہوا اور انتخابی مہم کے دوران بھی جاری رہا ۔ الیکشن کمیشن نے اسے کسی مرحلہ پر نہیں روکا ۔ رقومات کی منتقلی رائے دہندوں کیلئے صریح رشوت تھی ۔ یہ عمل ٹاملناڈو میں الیکشن کمیشن کے رویہ سے بالکل مختلف تھا ۔ کسانوں کیلئے رقمی مدد اسکیم کا اعلان مارچ 2023 میں کیا گیا تھا جب کہ لوک سبھا انتخابات کیلئے تواریخ کا 2004 میں اعلان کیا گیا تھا ۔ تاہم اس اسکیم کو روک دیا گیا ۔ ایک مفت کلر ٹی وی اسکیم 2006 سے نافذ العمل تھی جب اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوا تھا اس اسکیم کو مستقل طور پر معطل کردیا گیا تھا ۔ الیکشن کمیشن کا بہار میں جانبدارانہ رویہ واضح تھا ۔ ان ساری زیادتیوں کے باوجود این ڈی اے نے اچھی کامیابی حاصل کی ۔ میں اس بات پر زیادہ فکرمند ہوں کہ ریاستی حکومت کو اپنے وعدوں کیلئے کون پابند کروائے گا اور آئندہ پانچ سال کا حساب کون رکھے گا ۔ بہار کے عوام نے ریاستی اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن کے حق میں ووٹ نہیں دیا ہے اور ذمہ داری واپس عوام ہی پر آگئی ہے ۔ یہ ووٹ کا حق استعمال کرنے سے زیادہ بڑی ذمہ داری ہے ۔