وہ سب خوشیاں ہماری غائبانہ چھین لیتا ہے

   

بابری مسجد اراضی مقدمہ میں تیزی
شہادت کے ذمہ داروں کو سزا کب ہوگی؟
مہاراشٹرا اور ہریانہ … کشمیر انتخابی موضوع

بابری مسجد اراضی ملکیت مقدمہ میں سپریم کورٹ نے نومبر کے وسط میں فیصلہ سنان
ے کی تقریباً تیاری کرلی ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی وظیفہ پر سبکدوشی سے قبل 70 سالہ طویل تنازعہ کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے پھر ایک مرتبہ فریقین کو پابند کیا کہ 18 اکتوبر تک دلائل مکمل کرلیں۔ اس کے بعد ایک دن کی توسیع نہیں ہوگی۔ اندرون چار ہفتے فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے 6 اگست کو روزانہ سماعت کا آغاز کیا تھا اور 33 دن کی سماعت مکمل ہوچکی ہے۔ 17 نومبر کو چیف جسٹس کا ریٹائرمنٹ ہے اور انہوں نے چار ہفتے میں فیصلہ کو کرشمہ سے تعبیر کیا۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ چیف جسٹس کے ریٹائرمنٹ اور بابری مسجد کی شہادت کی تاریخ دونوں میں فاصلہ کم ہے۔ عدالت کو اس بات کی فکر ہے کہ سماعت میں طوالت کی صورت میں کہیں معاملہ پھر کھٹائی میں نہ پڑ جائے اور فیصلہ کیلئے کم از کم چار ہفتے کا وقت ضروری ہے۔ اگر 18 اکتوبر کے بعد بھی سماعت جاری رہی اور فیصلہ سے قبل چیف جسٹس ریٹائرڈ ہوجائیں تو 6 اگست سے شروع کردہ روزانہ سماعت کے عمل پر پانی پھر جائے گا اور نئے بینچ کے روبرو ازسرنو سماعت کرنی ہوگی۔ عاجلانہ فیصلہ کے سلسلے میں عدالت کی مجبوری چیف جسٹس کا ریٹائرمنٹ ہے یا پھر مرکزی حکومت کا دباؤ یہ عقدہ اس وقت کھلے گا جب فیصلہ منظر عام پر آئے گا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مرکزی حکومت اپنے انتخابی وعدے کی تکمیل کے سلسلے میں عجلت میں ہے تاکہ مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ ہو۔ دوسری طرف ہندو فریق 6 ڈسمبر سے رام مندر کی تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اگرچہ مندر کی تعمیر کے سلسلے میں ستونوں اور دیگر ضروری اشیاء کا کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے لیکن انہیں عدالت کے اشارہ کا انتظار ہے۔ عدالت میں زیردوران معاملات پر تبصرہ توہین عدالت کے مترادف ہے لیکن سنگھ پریوار اور بی جے پی قائدین کی بیان بازی جاری ہے۔ سبرامنیم سوامی کے بعد بی جے پی رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے 6 ڈسمبر کو مندر کی تعمیر کا مہورت مقرر کردیا۔ کیا بی جے پی قائدین عدالت کے فیصلے کے بارے میں جانتے ہیں یا پھر انہوں نے طئے کرلیا ہے کہ فیصلہ بھلے ہی کچھ ہو، مندر وہیں بنے گا۔ جس طرح 6 ڈسمبر 1992ء کو سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود بابری مسجد شہید کی گئی، ٹھیک اسی دن مندر کی تعمیر کا آغاز سنگھ پریوار کے منصوبہ میں شامل ہے۔ 1992ء میں اترپردیش میں بی جے پی حکومت تھی، اب تو یوپی کے ساتھ مرکز میں بھی بی جے پی برسراقتدار ہے لہذا ڈر کس بات کا۔

مندر کے حق میں عدلیہ کی پرواہ کئے بغیر بیان بازی سے مبصرین کو اندیشہ ہے کہ کہیں سپریم کورٹ سے محض رسمی طور پر اجازت کا انتظار تو نہیں؟ طویل عرصہ سے زیرالتواء حساس مسئلہ کے تصفیہ کیلئے سپریم کورٹ کی مساعی قابل تحسین ہے لیکن کاش مسجد کی شہادت کے خاطیوں سے متعلق مقدمہ کی سماعت بھی اسی طرح مکمل کی جاتی۔ مسجد کی شہادت کو 27 سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن شہادت کے سازشی آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ مسجد کا ملبہ جس پر عارضی مندر تعمیر کیا گیا، انصاف کیلئے آواز بلند کررہا ہے۔ جس طرح اراضی تنازعہ کی 70 سال بعد یکسوئی کی امید پیدا ہوئی، کیا مسجد کے قاتلوں کو سزا کیلئے 70 سال لگ جائیں گے؟ شہادت کے اصل ملزم کلیان سنگھ نے گورنر کے عہدہ پر میعاد کی تکمیل کے بعد دوبارہ سرگرم سیاست میں قدم رکھا تاکہ سزا سے بچا جاسکے۔ ان کے علاوہ ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی مرکزی کابینہ کے مزے لوٹنے کے بعد سیاسی ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں 1993ء سے یہ مقدمہ زیردوراں ہے۔ مرکز میں بی جے پی برسراقتدار آنے کے بعد سی بی آئی خصوصی عدالت کی کارروائی میں سست روی ہر کسی پر عیاں ہے۔ ملزمین کو آخر کب تک کھلی چھوٹ دی جائے گی؟ انصاف میں تاخیر انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ پھر سی بی آئی کی خصوصی عدالت کو سپریم کورٹ کی پیروی کا احساس آخر کب پیدا ہوگا۔ مسجد کی شہادت کے ملزمین کی فہرست گھٹتی جارہی ہے کیونکہ بعض ملزمین دنیا سے گذر گئے، باقی جو حیات ہیں، ان کی اکثریت طبعی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ اگر یہ لوگ سزا پائے بغیر دنیا سے گذر جائیں تو کون ذمہ دار ہوگا۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کو روزانہ سماعت کے ذریعہ فیصلہ سنانا چاہئے۔ ویسے بھی مرکز میں جب سے بی جے پی اقتدار میں ہے، خاطیوں اور قاتلوں کو بچانے کا چلن عام ہوچکا ہے۔ گجرات کے فسادات ہوں یا فرضی انکاؤنٹرس یا پھر گاؤکشی کے نام پر زعفرانی دہشت گردی کے ملزمین کا ہجومی تشدد، بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں معمول بن چکا ہے۔ عدالتوں سے بھی ملزمین بری ہورہے ہیں۔ ایسے میں بابری مسجد کی شہادت کے ملزمین کو سزا پر عوام میں شبہات پائے جاتے ہیں۔
کشمیر میں عوام اور عوامی قائدین کی محروسی کو 2 ماہ مکمل ہونے کو ہیں لیکن آج تک صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وزیراعظم نریندر مودی بین الاقوامی سطح پر جبکہ وزیر داخلہ امیت شاہ اندرون ملک کشمیر کے حالات کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے 370 کی برخاستگی کو حکومت کے کارنامے اور اپنے لئے فخر کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ یقینا مودی اور امیت شاہ کو فخر کرنے کا اختیار اس لئے بھی حاصل ہے کیونکہ ہندوستان کی تاریخ میں شاید ہی کسی ریاست کے عوام کو بنیادی سہولتوں غذا، ادویات اور کمیونیکیشن سے محروم رکھتے ہوئے 2 ماہ تک قید کیا گیا۔ یہ کام مودی اور امیت شاہ کے علاوہ کوئی اور شاید کر بھی نہیں سکتا تھا۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے دوسری مرتبہ کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے جائزہ اجلاس طلب کیا۔ انہوں نے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ 370 کی برخاستگی کے فوائد سے عوام کو واقف کرائیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اجیت ڈوول کو 2 ماہ بعد یہ خیال آیا اور درپردہ یہ اُن کا اعتراف ہے کہ عوام، حکومت کے فیصلے سے ناراض ہیں۔ دو ماہ کے دوران حکومت نے عوام کو نہ ہی 370 کی برخاستگی کے فوائد سے واقف کرایا اور نہ فوائد عوام تک پہنچائے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے 13,000 بچوں اور نوجوانوں کو لاپتہ ہونے یا قید میں ہونے کا الزام عائد کیا۔ اگر واقعی یہ نوجوان قید میں ہیں تو حکومت کو جرم اور جیلوں کی تفصیلات جاری کرنی چاہئیں۔ نوجوانوں کو جیلوں میں اور عوام کو گھروں میں قید کرنا جمہوریت کا خاصہ نہیں اور یہ بہتر حکمرانی کی علامت سمجھی نہیں جاسکتی۔ یہ تو محض ڈکٹیٹرشپ میں ہوسکتا ہے۔ سیاسی قائدین کو اپنی ریاست کا دورہ کرنے کیلئے عدالتوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی قیادت دو ماہ سے محروس ہے اور وہ اپنی آواز حکومت تک نہیں پہنچا سکتے۔ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی وہی قائدین ہیں جو کبھی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرچکے ہیں۔ ان قائدین نے ہندوستانی جمہوری اور انتخابی عمل پر بھروسہ کیا تھا، لیکن آج ان کے ساتھ یہ سلوک ناانصافی پر مبنی ہے۔ نریندر مودی کو اٹل بہاری واجپائی کے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جو انہوں نے اندرا گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے ادا کئے تھے۔ واجپائی نے کہا تھا کہ ’’وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے‘‘۔ مودی یہ تصور نہ کریں کہ اقتدار دائمی ہے، آج اقتدار ہے تو کل اقتدار سے بے دخل بھی ہوسکتے ہیں۔ مودی نے کشمیر کو امریکہ اور اقوام متحدہ تک پہنچا دیا۔ ’’ہاؤڈی مودی‘‘ پروگرام میں 370 کی برخاستگی کا ایسے افراد کے سامنے بطور کارنامہ پیش کیا گیا جو نہ ہی ہندوستان میں ووٹ دیتے ہیں اور وہ ٹیکس دہندہ ہیں۔ دراصل ’’گودی میڈیا‘‘ کو ’’ہاؤڈی مودی‘‘ کے نعرے تو سنائی دیئے لیکن باہر مخالف مودی انسانی حقوق کے ہزاروں کارکنوں کا احتجاج دکھائی نہیں دیا۔ ٹرمپ نے سیاسی فائدے کیلئے ایک طرف مودی اور دوسری طرف عمران خان کی تعریفوں کے پُل باندھ دیئے۔ مودی کو ’’فادر آف انڈیا‘‘ کہہ دیا جبکہ کسی کو باپ بننے سے پہلے اچھا شوہر بننا ضروری ہے۔ مودی کا اپنی بیوی کے ساتھ سلوک دُنیا دیکھ رہی ہے۔ اسی دوران مہاراشٹرا اور ہریانہ اسمبلی انتخابات میں امیت شاہ نے کشمیر کو انتخابی موضوع بنا دیا ہے۔ اسمبلی انتخابات یوں تو مقامی مسائل کی بنیاد پر ہوتے ہیں لیکن ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کی تیاری ہے۔ ملک کے مالیاتی بحران اور معاشی زوال سے منہ کو جو کالک لگی تھی، اسے چھپانے کیلئے کشمیر کو آگے کردیا گیا۔ ہندوستانی عوام انصاف پسند ہیں اور وہ دونوں ریاستوں میں اپنے شعور کا بہتر مظاہرہ کریں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اور این سی پی ، بی جے پی سے کس طرح نمٹ پائیں گے ۔ انتخابات سے عین قبل شرد پوار اور ان کے بیٹے کو منی لانڈرنگ مقدمہ میں پھانس دیا گیا۔ ہم امیت شاہ سے بس اتنا ہی کہیں گے کہ اگر ہندوتو ا کے مسائل سے اتنی دلچسپی ہے تو بی جے پی کے نام سے ’جنتا‘ نکال کر ’ہندوتوا‘ لگا دیں تاکہ نام ’بھارتیہ ہندوتوا پارٹی‘ ہوجائے۔ منظر بھوپالی نے حالات پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے:
ہمیں اپنی تباہی کی خبر بھی ہو نہیں پاتی
وہ سب خوشیاں ہماری غائبانہ چھین لیتا ہے