محمد مصطفی علی سروری
عائشہ رینا کی عمر 22 برس ہے اور لدیدہ فرزانہ کی عمر 21 سال ہے۔ یہ دونوں لڑکیاں جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرالا سے تعلق رکھتی ہیں اور حصول تعلیم کے لیے دہلی میں واقع سنٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پڑھ رہی ہیں۔ عائشہ رینا ایم اے ہسٹری کی طالبہ ہے اور لدیدہ فرزانہ عربی سے گریجویشن کر رہی ہیں۔
15؍ دسمبر 2019 کو دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے متنازعہ شہریت ترمیمی بل کے قانونی شکل اختیار کرلینے کے بعد زبردست احتجاج منظم کیا تھا جس کے دوران تشدد اور پولیس کے تصادم نے کئی نوجوانوں کو بری طرح زخمی کردیا تھا۔ 15؍ دسمبر 2019ء کو ہی جنوبی دہلی کے علاقے کی ڈھائی منٹ کی ویڈیو نے ملک بھر میں ہلچل مچادی۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل جانے والی اس ویڈیو میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دو حجابی لڑکیوں نے انسانی ڈھال بناکر کس طرح اپنے ایک ساتھی کو پولیس کے ظلم سے بچانے کی کوشش کو دکھلایا گیا۔ یہ دو حجابی لڑکیوں کا ہی بعد میں عائشہ رینا اور لدیدہ فرزانہ کی حیثیت سے تعارف سامنے آیا۔
کون ہیں یہ دو لڑکیاں؟ اور ان کے پاس اتنی جرأت اور ہمت کیسے آئی کہ وہ دہلی کی لاٹھی بردار پولیس کے سامنے ڈٹ گئیں۔ کس نے انہیں سکھایا کہ پولیس کی لاٹھی سے ڈرے بغیر ان کے منہ پر انہیں جواب دینا چاہیے اور وقت پڑجائے تو لاٹھی کی مار سے ڈرے بغیر آگے بڑھ کر مار کھانے والے کو بچانے کے لیے انسانی ڈھال بناکر اس کی حفاظت کو یقینی بنانا؟
انڈیا ٹوڈے 19؍ دسمبر کی ایک رپورٹ کے مطابق لدیدہ فرزانہ کیرالا کے کنور علاقے کی رہنے والی ہے۔ اس کے والد کا نام محمد سخالون ہے۔ وہ ایک سیلزمین ہیں۔ اس نے پہلے بی اے اکنامکس کیا۔ اب وہ عربی سے بی اے کر رہی ہیں۔
لدیدہ فرزانہ کی ماں ایک عربی مدرسہ میں معلمہ ہیں۔ خود لدیدہ کی تعلیم کنور کے انگلش میڈیم اسکول سے ہوئی ہے۔ لدیدہ کے متعلق انڈیا ٹوڈے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی کا رخ کرنے سے پہلے ہی لدیدہ سماجی تحریک کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگی تھی اور وہ اسلام پسند طلبہ کی تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (ایس آئی او) سے بھی جڑی ہوئی تھی۔ خبر رساں ویب سائٹ ٹی این ایم کی ایک رپورٹ جو 18؍ دسمبر 2019ء کو شائع ہوئی کے مطابق لدیدہ فرزانہ کے شوہر کا تعلق باضابطہ طور پر ایس آئی او سے ہے۔ وہ اس تنظیم کے کا رکن ہیں۔
دوسری حجابی لڑکی کے متعلق انڈیا ٹوڈے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ عائشہ رینا نے ملاپورم کے ہی کالج سے گریجویشن پاس کیا تھا اور اب وہ ایم اے ہسٹری کر رہی ہے۔ گذشتہ سال ہی عائشہ کی شادی افضل رحمن کے ساتھ ہوئی۔ افضل نواڈا کے ایک ٹیلی ویژن چیانل میں کام کرتا ہے۔ اب وہ ایک پورٹل کے لیے برسرکار ہے۔ عائشہ کیرالا کی ایک غیر سرکاری تنظیم Yes India کے لیے کام کرتی ہیں۔
عائشہ رینا نے حملہ آور دہلی پولیس اہلکاروں کو روکنے کے لیے نہ صرف خود کو پولیس کی لاٹھیوں کے آگے کرلیا بلکہ اپنے ہاتھ کی انگلی اٹھاکر انہیں وارننگ بھی دی کہ اگر اب لاٹھی اٹھی تو بہت برا ہوگا۔
عائشہ نے ایک ویب پورٹل کو بتلایا کہ وہ اسلام پسند طلبہ کی تنظیم ایس آئی او کی حمایتی ہے کیونکہ اس تنظیم میں وہ اپنی مسلم شناخت کے ساتھ کام کرسکتی ہے۔
قارئین کرام یہ کوئی اتفاقی بات نہیں کہ CAA کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج کو اصلاً کسی تنظیم نے جان دی ہے اور ایک نئی توانائی بخشی ہے وہ اسلام پسند مسلم نوجوانوں کی جماعت ایس آئی او ہی ہے۔ 15؍ دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس نے داخل ہوکر دونوں کیمپس میں دہشت کا ماحول پھیلانا چاہا اور پھر ان دونوں یونیورسٹیوں کو اگلے ماہ جنوری 2020 تک بند کرنے کے اعلان نے طلبہ کو ہاسٹل چھوڑ کر اپنے گھروں کا رخ کرنے پر مجبور کردیا تھا لیکن شہر حیدرآباد میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی 15؍ دسمبر 2019کو شہریت ترمیمی بل کے قانونی شکل اختیار کرلینے کے بعد اپنا احتجاج شروع کیا۔ حالا نکہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں طلبہ کے سمسٹر امتحانات کا 14؍ دسمبرسے آغاز ہوچکا تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس کو بند کردیئے جانے کے بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے کیمپس میں طلبہ دن میں امتحانات لکھنے لگے اور شام ہوتے ہی اپنے احتجاج کے کیمپ میں مصروف ہوجاتے ۔ صرف اتنا ہی نہیں دن میں امتحان لکھنے اور رات میں احتجاج کرنے والے ان طلبہ نے اپنے ان امتحانات کو ری شیڈیول کرنے کے لیے جن کا 16 اور 17؍ دسمبر کو مقاطعہ کیا گیا تھا اتوار 22؍دسمبر کو بھی امتحان لکھا تاکہ تعلیمی سمسٹر کا نقصان نہ ہو۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر عمر فاروق ہیں۔عادل آباد تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کا تعلق بھی اسلام پسند نوجوانوں کی تنظیم ایس آئی او سے ہی ہے۔ عمر فاروق کی قیادت میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے طلبہ سی اے بی کی منظوری کے بعد مسلسل پُر امن اور مؤثر احتجاج کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون CAAکے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں۔ عمر فاروق کی قیادت میں ہونے والے اس احتجاج کو ملک گیر سطح پر میڈیا میں کوریج بھی خوب ملا۔
سی اے اے پر احتجاج کرنے والی کیرالا کی ایک اور حجابی لڑکی نے بھی میڈیا کو اپنی جانب مبذول کروالیا۔ رابعہ عبدالرحیم نے پانڈیچیری یونیورسٹی سے 2018 میں ماس کمیونکیشن کے مضمون میں پوسٹ گریجویشن کا کورس پاس کیا اور دوران تعلیم نمایاں تعلیمی مظاہرہ کی بنیاد پر گولڈ میڈل کی حقدار قرار پائی۔ 23؍ دسمبر 2019ء کو پانڈیچیری یونیورسٹی نے اپنا جلسہ تقسیم اسناد منعقد کیا جس میں صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند موجود تھے۔ لیکن اس باضمیر حجابی لڑکی رابعہ عبدالرحیم نے شہریت ترمیمی بل کے متنازعہ قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کروانے کا فیصلہ کیا اور بطور ناراضگی جلسہ تقسیم اسناد میں صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں اپنا گولڈ میڈل لینے سے انکار کردیا۔
قارئین یہ بات نوٹ کریں کہ آج ملک میں دستور کے تحفظ کی لڑائی اور احتجاج میں قومی پرچم ہاتھ میں تھامنے والے یہ احتجاجی جہاں اپنے سروں پر حجاب پہنے ہوئے ہیں اور ساتھ میں اسلام پسند تنظیموں سے وابستہ ہیں اور سب سے خاص بات کہ ان کی اکثریت 20 تا 30 سال کے عمر کے نوجوانوں سے ہے۔ یہ لوگ اپنی الگ دیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بنارہے ہیں۔ اپنے ہاتھوں میں دستور ہند اور قومی پرچم لے کر آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی صفوں میں امن پسند بہت سارے ایسے ہندوستانی بھی ہیں جو مسلمان نہیں لیکن دستور ہند پر اٹوٹ یقین رکھتے ہیں اور ملک کے سیکولر تانے بانے کو بکھرنے سے روکنے ہر ممکنہ اقدامات کرنے تیار ہیں۔ کیا مسلمانوں کے دانشور قائدین اور تنظیمیں اس بات کو نوٹ کر رہی ہیں۔ کاش کے کوئی سمجھ پائے۔
یہ کوئی مفروضہ اور خیالی پلائو نہیں ہے۔ دنیاد یکھ رہی ہے۔ میڈیا بھی اس اہم نکتہ کو رپورٹ کر رہا ہے۔ اخبار انڈین ایکسپریس نے 25؍ دسمبر کو سورو رائے برمن کی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جوکہ اسی جانب وضاحت کر رہی ہے۔ (Women take the lead at Delhi’s Shaheen Bagh sit-in: NRC will have devastating impact on families.
یہ دانشوران ملت اس بات کو نوٹ کر رہے ہیں یا نہیں وقت کا مورخ صحافی کا قلم تو اس کی نشاندہی کر رہا ہے۔بقول حبیب جالب
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صف ماتم بچھائے مرگِ ظلمت پر
وہ نوحہ گر ہے خطرے میں وہ دانشور ہے خطرے میں
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com