ٹرمپ ایران کی تباہی کے خواہاں کیوں ؟

   

روش کمار
آج کل ساری دنیا ایران ۔اسرائیل جنگ کو لے کر کافی پریشان ہے اور اس جنگ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پوری طرح اسرائیل اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایران کے خلاف یہ جنگ اسرائیل نہیں بلکہ امریکہ لڑ رہا ہے ۔ اب تو ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ایران پر فیصلہ کن حملہ کیا جائے گا لیکن یہ حملہ کب اور کیسے کیا جائے گا اس بارے میں کچھ بھی بتانے سے گریز کیا گیا پھر آنے والے دن ایران ہی نہیں اسرائیل کیلئے نازک ہوسکتے ہیں کیونکہ ایران بھی اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے کرتا جارہا ہے اور شائد ایران سے اس طرح کے حملوں کی امریکہ اور اسرائیل دونوں کو قطعی توقع نہیں تھی ۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دینے Unconditional Surrender کیلئے کہا ہے۔ ٹرمپ نے ایسے کہا جیسے ایران ان کا حکم بلا چوں و چراں مان لے گا۔ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشیل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے غیر مشروعط سرینڈر جیسے الفاظ استعمال کئے ۔ یہ دو لفظ لکھنے سے پہلے ڈونالڈ ٹرمپ نے خود بھی ہتھیار ڈال دیئے ۔ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات کے دوران جنگوں کے خلاف طویل خطاب کرتے تھے ، کہتے تھے کہ جنگ کروانے والی لابی کیلئے امریکہ نے جنگیں کی مگر امریکہ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ، وہ برباد ہوگیا اس لئے جنگیں روک کر وہ پھر سے امریکہ کو عظیم ملک بنائیں گے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے امریکہ گریٹ اگین (MAGA) کا نعرہ دیا ۔ امریکی عوام نے ٹرمپ کی باتوں کا یقین بھی کرلیا اور اب ٹرمپ نے اس عوام کو اچھے دن کے انتظار میں اکیلا چھوڑ دیا ہے اور اس لابی کے آگے خود کو حوالے کردیا ہے جس سے لڑنے کا وعدہ کر کے ٹرمپ اقتدار میں آئے تھے ۔ ٹرمپ کی زبان ان کا لب و لہجہ امریکہ کیلئے انجان نہیں لیکن ایران کو لے کر جس طرح سے انہوں نے بیان جاری کیا ہے۔ اس زبان میں ابھی تک اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ہی بات کر رہے تھے ، ویسے بھی جب سے ایران پر اسرائیل نے حملہ بولا ہے ، ٹرمپ کی زبان اور لب و لہجہ میں یہ چھٹ پھٹا ہٹ نظر آنے لگی تھی کہ وہ اسرائیل کی تائید میں اترنے کیلئے بے چین ہیں، مگر کہہ نہیں پارہے ہیں۔ ٹرمپ کہاں سے چلے تھے کہاں پہنچتے جارہے ہیں ۔ 2015 کے ان کے ایک انٹرویو سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ گارجین اخبار کو انہوں نے ایک انٹرویو دیا تھا ، ٹرمپ کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے 2015 میں عراق کے تعلق سے عراق میں ہم نے صدام حسین کو ہٹادیا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی مدد ملی ۔ جن لوگوں پر صدیوں سے تانا شاہ حکومت کر رہے ہیں ، ہم انہیں بتارہے ہیں ، اپنا ملک کیسے چلائیں۔ عراق آج برباد ہوچکا ہے ۔ ایران اور دیگر اس پر قبضہ کرنے والے ہیں ۔ ہمیں اپنا ملک بنانا ہے ، ہم دوسرے کی زمین پر جا کر قومی تعمیر کا کام کر رہے ہیں ۔ امریکہ پر اس کی وجہ سے 19 کھرب ڈالرس کا قرض ہوگیا ہے ۔ ہمیں پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے ، ہم جس ملک سے خوش نہیں اسے جاکر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم آپ کو پھر سے بنانے والے ہیں۔ ٹرمپ نے شام میں اوباما کی دخل اندازی کی مذمت بھی کی تھی۔
2015 میں ٹرمپ نے سی این این کو ایک انٹرویو دیا ، اس میں بھی ٹرمپ یہی دہراتے ہیں کہ لیبیا ، عراق ، مشرق وسطی سب تباہ ہوچکا ہے ۔ امریکہ نے ان کے ساتھ جنگ کر کے کچھ بھی حاصل نہیں کیا ۔ اگر مشرق وسطی میں قذافی اور صدام حسین اقتدار میں ہوتے تو صورتحال بہتر ہوتی ۔ صدام حسین کے بارے میں ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ بھیانک شخص تھا لیکن آج کی بہ نسبت تب کی صورتحال بہتر تھی ۔ عراق میں کسی قسم کی دہشت گردی نہیں تھی اور صدام دہشت گردوں کو ہلاک کر رہے تھے لیکن اب عراق دہشت گردوں کا ہاروڈ بن گیا ہے۔ یہی بات ٹرمپ نے 2016 میں بھی کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر طرح کا ظلم عراق میں ہونے لگا ہے ۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس کو ہٹانے میں اربوں ڈالرس خرچ کر رہے ہیں، ان باغیوں پر پیسہ لگارہے ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے ۔ دس برسوں تک ٹرمپ نے اپنی پوری سیاست اسی جنگ کی مخالفت پر کھڑی کی اور کہا کہ دوسرے ملک میں کیا ہورہا ہے اس میں امریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ امریکی فوج کا استعمال ہوتا ہے ، ٹیکس دہندگان کا پیسہ برباد ہوتا ہے۔ 2024 کی انتخابی مہم میں جنگ کو روکنے اور ختم کرنے کا موضوع بہت بڑا بن گیا ، ٹرمپ نے کہا کہ وہ جنگوں کو روک دیں گے ۔ امریکہ میں اچھے دن آئیں گے لیکن سب الٹا ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔ 13 جون سے 17 جون کے درمیان ٹرمپ نے تیزی سے اپنے حامیوں سے لے کر امریکہ کو وقت دیا کہ انہیں پہچان لیں، ٹرمپ کو پہچان لیں۔ آخر میں اپنے حامی میڈیا ، بااثر صحافیوں اور مشیران کی باتوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے بناء شرط سرینڈر کی دھمکی جاری کردیتے ہیں ۔ ٹرمپ کا یہ ٹوئیٹ کہ بناء شرط سرینڈر کئی طریقہ سے پر ھا جانا چاہئے ۔ اس میں ان کا بھی سرینڈر دکھائی دینا ہے ۔ ٹرمپ صرف ایران سے سرینڈر کرنے کیلئے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اپنے با اثر حامیوں سے بھی خود کو حوالے کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں ۔ ریپبلیکن سنیٹر مازجوری ٹیلر گرین ، اسٹیو نیسن، جوسن میاٹ گیٹس و عیرہ کھل کر مخالفت کر رہے ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران بھی ان لوگوں نے جنگ کی مخالفت کی اور اب بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن کیا یہ لوگ بھی سرنڈر کردیں گے ؟ کیا انہیں سرینڈر کرنا ہی پڑے گا ؟ اگر امریکہ اسرائیل کی تائید میں جنگ میں اتر گیا ، تلسی گبارڈ سے لے کر نائب صدر جے ڈی وینس کو بھی سرینڈر کرنا پڑے گا ۔ ان تمام نے صدارتی انتخابات کے وقت جنگ کو امریکہ کے مستقبل کو برباد کرنے والا بتایا تھا ۔ اب یہ تمام لوگ کیا کریں گے ۔ کینیڈا روانہ ہونے سے پہلے ہی ٹرمپ نے ٹکرکالسن پر طنز کردیا کہ انہیں ضرورت ہے کہ کسی چیانل پر جائیں جہاں لوگوں کو بھی ان کی باتیں سننے کا موقع ملے ۔ ٹرمپ نے کالسن پر طعنہ کسا کیونکہ انہیں فاکس نیوز چھوڑنا پڑا تھا ۔ اب وہ آزادانہ طور پر Podcast کرتے ہیں ۔ کینیڈا سے واپس ہوتے وقت ایرفورس ون میں تلسی گبارڈ سے بھی کنارہ کرلیا ۔ یہ نہیں کہا کہ میں جنگ بندی کی کوشش میں ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ صحیح معنی میں سب کچھ ختم ہو، جنگ نہیں۔ ایران جوہری ہتھیاروں سے پوری طرح پیچھے ہٹ جائے اور امریکہ پہنچتے پہنچتے ٹرمپ اصل رنگ میں آجاتے ہیں ۔ کالسن فاکس نیوز میں اینکر ہوا کرتے تھے ، ان دنوں آزادانہ صحافت کر رہے ہیں۔ ٹیوٹر پر انہیں 16 ملین سے زائد لوگ فالو کرتے ہیں ۔ جب فاکس نیوز میں تھے تو روزانہ 30 لاکھ لوگ ان کا شو دیکھا کرتے تھے ۔ ٹکر کالسن نے ٹرمپ کو اپنی تائید و حما یت دی اور اپنے پروگرام میں بلایا اپنے پروگرام میں کالسن ٹرمپ کے پرانے بیانات کو یاد دلارہے ہیں اور ایران پر حملہ کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ اسٹیو بینسن نے بھی مورچہ کھول دیا ہے اور کہنے لگے ہیں کہ اگر امریکہ نے اسرائیل کے چکر میں ایران پر حملہ کیا تو اگلے 200 دن اس کیلئے بھیانک ہونے جارہے ہیں۔ بنین امریکی میڈیا کا ایک بڑا نام ہے ۔ ٹرمپ کی پہلی میعاد میں کچھ ماہ ان کے مشیر بھی رہے ۔ ٹکر کالسن اور اسٹیو بینسن کا کہنا ہے کہ امریکی عوام کو کبھی سچائی نہیں بتائی گئی۔ عراق میں امریکہ ناکام رہا ۔ اس کے 8 ہزار سپاہی مارے گئے ۔ 50 ہز ار زخمی ہوئے اور 9 کھرب ڈالرس کا نقصان ہوا۔ صرف ٹرمپ کے بیان کو مت دیکھئے ، یہ بھی دیکھئے کہ امریکہ میں کس طرح کی بحث چل رہی ہے ۔ کارلسن ، ٹرمپ کے امریکہ کو عظیم بنانے کے منصوبہ کی خوب وکالت کی لیکن جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہی نہیں کالسن نے ریپبلکن رکن ٹیڈ کروز کا انٹرویو کیا اور اس انٹرویو میں ٹیڈ کروز کے پسینے چھڑا دیئے ۔ ٹیڈ کروز بھی صدارتی عہدہ حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل تھے ۔ اس انٹرویو میں ٹکر کالسن ٹیڈ کروز سے پوچھنے لگے کہ ایران کی آبادی کتنی ہے تو کروز کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا۔ کالسن کہتے ہیں کہ جس ملک کی آبادی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ، آپ اس پر بم گرانا چاہتے ہیں ۔ کروز جواب دینے سے قاصر رہے ۔ یہ وہ باتیں کرتے رہے کہ میں میز پر بیٹھ کر آبادی نہیں گنتا تو اس کے بعد کالسن نے پوچھ لیا کہ ایران کے نسلی برادریوں کے بارے میں بتایئے کہ وہاں کس مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں، تب کروز کہنے لگے کہ فارسی رہتے ہیں ، شیعہ ہیں لیکن درمیان میں ہی جواب چھوڑ کر کہنے لگے میں ایران پر ماہر نہیں ہوں۔ کارلس بھڑک گئے کہ آپ ایران کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ، ایسی حکومت کے سنیٹر ہیں جو ایران کی حکومت کو گرانا چاہتی ہے۔ 2003 کا یہ امریکہ نہیں جب ایک ہی جھوٹ چل رہی تھی اور چل گئی ۔ ایک بات ہے کہ ٹرمپ G-7 اجلاس چھوڑ گئے ۔ آخر کیوں چھوڑ گئے ، اس بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اہم فیصلہ کرنے کیلئے واشنگٹن روانہ ہوئے ، وہ ایران کے ساتھ کوئی معاملت نہیں کرنا چاہتے بلکہ یہ معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ایران کو پوری طرح سے اپنا جوہری پروگرام ختم کرنا ہی پڑے گا ۔ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئندہ دو دن میں اسرائیل کچھ ایسا کرے گا جسے اب تک کسی نے نہیں دیکھا ہوگا تو اس کا کیا مطلب ہے ۔ ٹرمپ کیا اب نیتن یاہو کی زبان اور لب و لہجہ اختیار کرچکے ہیں۔ ٹرمپ کی یہ زبان بتارہی ہے کہ ایران عراق یا غزہ کی طرح گھیرا جانے والا ہے ۔ اس کی بربادی سامنے کھڑی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس صورتحال کا سامنا کیسے کرے گا ۔ کیا وہ اپنے جوہری پروگرام کو پوری طرح بند کردے گا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جو اب آئندہ چند دنوں میں مل جائے گا ۔