اسلام آباد : ڈی چوک پر احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کی اہلیت اور وفاداری کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت کو کارکنوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے متحد ہونا پڑا گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد میں ڈی چوک پر حالیہ احتجاج کے ناخوشگوار اختتام کے بعد پارٹی کی قیادت میں اختلافات دیکھنے میں آرہے ہیں اور چند رہنما تو کھلے عام اس احتجاج کی ناکامی کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اس دوران پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کی اہم اتحادی جماعت سنی تحریک پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا، جو پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور سیاسی کمیٹی کے رکن بھی تھے، نے ان دونوں عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے احتجاج کی ناقص حکمت عملی اور ڈی چوک سے پیچھے ہٹنے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ ان دونوں مستعفی قائدین نے بہرحال یہ کہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی حمایت جاری رکھیں گے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ وہ پارٹی کی قانونی ٹیم کی سربراہی جاری رکھیں گے، لیکن سیاسی معاملات سے دور رہیں گے۔ کچھ رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ بشریٰ بی بی نے پارٹی قائدین کی تجاویز کے برخلاف لانگ مارچ کو ڈی چوک کی طرف دھکیل دیا۔ بیرسٹر گوہر بھی کہتے رہے ہیں کہ عمران خان سنگجانی میں احتجاج کرنے پر آمادہ تھے۔ پی ٹی آئی کے سینئر قائد شیر افضل مروت البتہ ٹی وی ٹاک شوز میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے یہ کہتے رہے کہ ڈی چوک جانے کا فیصلہ پارٹی کا تھا۔ پی ٹی آئی کے بعض حلقوں کی جانب سے مظاہرین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے آغاز پر علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی جانب سے احتجاج کی قیادت چھوڑ کر چلے جانے کے اقدام پر بھی بھر پور تنقید کی جا رہی ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بشریٰ بی بی نے گنڈا پور کے دباؤ میں آ کر احتجاجی مقام چھوڑا؟ پی ٹی آئی کے قائد رؤف حسن نے اس تاثر کو مسترد کیا اور کہا کہ بشریٰ بی بی، جو پارٹی کے بانی عمران خان کی اہلیہ ہیں، نے کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے کہنے پر احتجاجی مقام نہیں چھوڑا۔