پاکستان میں مخلوط حکومت تشکیل دینے پر اتفاق

,

   

آصف زرداری اور شہباز شریف کی ملاقات ، مشاورت کے بعد قطعی فیصلہ

لاہور:سابق صدر آصف زرداری اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے مخلوط حکومت تشکیل دینے سے اتفاق کرلیا ہے۔ حکومت سازی کیلئے دونوں جماعتیں رائے پیش کریں گی۔تفصیلات کے مطابق نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی رہائش گاہ پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ قیادت کے درمیان اہم اجلاس منعقد ہوا۔سابق صدر آصف زرداری، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، ن لیگ کے صدر شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے اس اجلاس میں کئی اہم امور پر بات چیت کی۔ذرائع نے بتایا کہ آئندہ حکومت سازی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ شہبازشریف نے نواز شریف کا پیغام آصف زرداری کو پہنچایا کہ سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے دونوں جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ذرائع کے مطابق آئندہ ملاقات میں معاملات کو مشاورت کے ساتھ حتمی شکل دی جائے گی۔گذشتہ روز مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کارکنان سے خطاب میں مل بیٹھ کر مشترکہ حکومت بنانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں ان کو بھی دعوت دیں گے کہ مل کر حکومت بنائیں۔پاکستان کے 8فروری کو ہوئے عام انتخابات میں عمران کی پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ کامیاب آزاد امیدواروں کی تعداد 87 ہے جبکہ ن لیگ کو 60، پی پی پی کو 45 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔اسلام آ ٓباد سے موصولہ اطلاع کے مطابق ایم کیو ایم نے 7 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، اسی طرح آئی پی پی نے دو جبکہ جے یو آئی نے ایک نشست اور مسلم لیگ ق ایک نشست پر کامیاب ہوئی ہے۔ نواز شریف نے سادہ اکثریت نہ ہونے پر اتحادی حکومت بنانے کا اعلان کیا شہباز شریف کو آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کی ذمہ داری دی گئی۔نواز شریف نے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، ہمارا فرض ہے ملک کو بھنور سے نکالا جائے۔سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم سب پارٹیوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں، چاہے وہ پارٹی ہے یا آزاد لوگ ہیں۔ ان کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کیلئے آؤ ہمارے ساتھ بیٹھو، ہمارا ایجنڈا صرف اور صرف خوشحال پاکستان ہے۔مسلم لیگ ن کے قائد کا کہنا تھا کہ سیاستدان، پارلیمنٹ، افواج پاکستان، میڈیا سب مل کر مثبت کردار ادا کریں، ملک میں استحکام کے لئے کم از کم دس سال چاہئے، پاکستان اس وقت کسی لڑائی کا متحمل نہیں ہوسکتا سب کومل کر بیٹھنا ہوگا اور معاملات طے کرنے ہوں گے۔قطعی نتائج کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی پارٹیوں میں توڑ جوڑ شروع ہوگئی ہے۔