پرانے شہر کو ہول سیل میں فرینڈلی جماعت کے حوالے کرنے پر بی آر ایس کیڈر نارا ض

,

   

مجلس پر ترقیاتی و فلاحی اسکیمات کی فراہمی میں نظرانداز کردینے کا الزام ۔ اس مرتبہ خلاف کام کرنے پر سنجیدگی سے غور۔اضلاع میںبھی مقامی قائدین کے نخرے

حیدرآباد ۔ 19۔ ستمبر ( سیاست نیوز ) بی آر ایس اور مجلس کے فرینڈلی اتحاد سے پرانے شہر میں بی آر ایس کے ہندو۔ مسلم قائدین اور پارٹی کارکن پارٹی قیادت سے ناراض ہیں ۔ اضلاع میں بھی پارٹی کو نقصان پہونچنے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں ۔ حکمران جماعت کے قائدین کا احساس ہے کہ ریاست میں 10 سال سے پارٹی اقتدار میں ہے اور ریاست بھر میں بی آر ایس کو مستحکم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ پرانے شہر میں بھی پارٹی کا مضبوط کیڈر ہے ۔ جی ایچ ایم سی انتخابات میں پارٹی امیدواروں کی کامیابی اس کا ثبوت ہے باوجود اس کے پارٹی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے اور ہول سیل میں پرانا شہر فرینڈلی جماعت کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ پرانے شہر کے بی آر ایس قائدین کو حکومت کے نامزد کارپوریشن اور بورڈ کے عہدوں کے علاوہ پارٹی کے تنظیمی عہدوں میں یکسر نظرانداز کردیا جارہا ہے ۔ پرانے شہر میں ایک سیٹ ون کا ادارہ ہے ۔ پانچ سال کے دوران اس ادارے کیلئے صدرنشین کے علاوہ اراکین کا انتخاب نہیں کیا گیا ہے یا پھر دوسرے کسی ادارے یا کارپوریشن کی کوئی اہم ذمہ داری سونپی نہیں گئی ہے ۔ تلنگانہ حکومت نے کئی فلاحی اسکیمات متعارف کرائے ہیں جس میں سبسیڈی امدادی اسکیمات ، ڈبل بیڈروم مکانات ، گروہا لکشمی ، دلت بندھو کے علاوہ دیگر اسکیمات بھی شامل ہیں ۔ ان اسکیمات پر عمل آوری کی ذمہ داری یقیناً ارکان اسمبلی کے سپرد ہے تاہم اس کے فائدے عوام میں پہونچانے کی تقریبات میں فرینڈلی جماعت کی جانب سے مقامی بی آر ایس قائدین کو نظرانداز کیا جارہا ہے ۔ انہیں تقریبات میں مدعو نہیں کیا جارہا ہے اور نا ہی ان کی سفارشات کو قبول کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے بی آر ایس قائدین کا عوام سے کوئی رابطہ اور رشتہ برقرار نہیں ہے ۔ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں پارٹی کی جانب سے برائے نام ہی امیدواروں کا اعلان کیا جاتا ہے مگر ان کی انتخابی مہم میں پارٹی کے کوئی سرکردہ قائدین حصہ نہیں لیتے اور یہ شکایت بھی عام ہیکہ جنہیں پارٹی امیدوار بنایا جارہا ہے انہیں انتخابی مہم چلانے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے ایسے میں پارٹی کیڈر غیریقینی صورتحال کا شکار ہے۔ اس مرتبہ پرانے شہر سے اپوزیشن کا کوئی طاقتور امیدوار ملتا ہے تو اس کی تائید کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے کیونکہ پرانے شہر کا بی آر ایس کیڈر خود اپنی جماعت اور فرینڈلی جماعت دونوں سے ناراض ہے ۔ پارٹی سرگرمیوں میں شامل رہتے ہوئے اپنی اہمیت کا احساس دلانے کیلئے خفیہ طور پر اپوزیشن کی تائید کرنے پر غور کررہا ہے ۔ حلقہ لوک سبھا سکندرآباد کے دو اسمبلی حلقہ جات نامپلی اور جوبلی ہلز میں بھی یہی احساس پایا جاتا ہے ۔ نامپلی میں بی آر ایس کا کیڈر اور جوبلی ہلز میں مجلس کا کیڈر مقامی ارکان اسمبلی سے ناراض ہیں ۔ یہی نہیں اضلاع میں اسمبلی حلقہ بودھن میں مجلس کا کیڈر موجودہ بی آر ایس کے مقامی رکن اسمبلی شکیل عامر سے ناراض ہے اور ان کے خلاف مجلس مہم چلارہی ہے جبکہ کریم نگر اور محبوب نگر کے وزراء سے مجلس کے اختلافات صدر مجلس نے ختم کرادیئے ہیں۔ بھینسہ میں بھی ناراضگیاں ختم ہوجانے کا دعوی کیا جارہا ہے ۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہیکہ اضلاع میں بی آر ایس کے قائدین فرینڈلی جماعت مجلس سے مفاہمت پر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں ان کا کہنا ہیکہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں صدر مجلس کی جانب سے بی آر ایس کی تائید میں انتخابی مہم چلانے کی وجہ کریم نگر ، نظام آباد اور عادل آباد پارلیمانی حلقوں میں بی جے پی کو فائدہ ہوا ہے اور بی آر ایس کو نقصان ہوا ہے ۔ ان پانچ سال کے دوران تلنگانہ میں بی جے پی مزید مستحکم ہوئی ہے ۔ بی جے پی کے سرکردہ قائدین امیت شاہ ودیگر کی جانب سے کار کی اسٹرینگ مجلس کے ہاتھ میں ہونے کا دعوی کرتے ہوئے تشہیر کی جارہی ہے اور ساتھ ہی اس مرتبہ بی جے پی نے حساس اور متنازعہ مسائل کو انتخابی موضوع بناتے ہوئے عوام کے درمیان پہونچنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ فلم ’’ رضاکار ‘‘ کی تیاری بھی اسی مہم کا حصہ ہے ۔ ہر مسئلہ کو ہندو مسلم کرتے ہوئے سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر ان حالات میں مجلس کا ساتھ لیا گیا تو نقصان ہونے کا بھی حکمران جماعت کے امیدواروں میں خوف پایا جارہا ہے ۔ دوسری طرف فرینڈلی جماعت کے قائدین کے اضلاع میں ناز و نخرے بھی انہیں اُٹھانا پڑرہا ہے ۔ جس سے وہ بھی پارٹی قیادت کے پاس اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں ۔ ن