پرانے شہر کے عوام رائے دہی سے دور، مقامی قیادت سے ناراضگی کا نتیجہ

   

مجلس کے امیدواروں سے عوام مطمئن نہیں، مذہبی رہنماؤں، جماعتوں اور تنظیموں کی اپیلوں کا کوئی اثر نہیں
دوپہر تک پولنگ اسٹیشن سنسان، سہ پہر کے بعد مقامی جماعت کی ٹولیاں سرگرم
حیدرآباد 30 نومبر (سیاست نیوز) حیدرآباد بالخصوص پرانے شہر کے اسمبلی حلقہ جات میں رائے دہی سے عوام کی عدم دلچسپی نے پھر ایک مرتبہ مقامی قیادت سے ناراضگی کو بے نقاب کردیا ہے۔ یوں تو گزشتہ کئی انتخابات میں پرانے شہر کے اسمبلی حلقہ جات کی رائے دہی کا فیصد بتدریج گھٹتا رہا ہے لیکن اِس مرتبہ اُمید کی جارہی تھی کہ شعور بیداری مہم کے نتیجہ میں رائے دہی کے فیصد میں اضافہ ہوگا لیکن پولنگ بوتھس کی صورتحال نے خود الیکشن کمیشن کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ چارمینار، یاقوت پورہ، ملک پیٹ، بہادر پورہ، چندرائن گٹہ اور نامپلی میں صبح کی اوّلین ساعتوں میں پولنگ بوتھس پر سناٹا طاری تھا۔ صبح 7 بجے رائے دہی کا آغاز ہوا لیکن کئی مقامات پر 8 بجے تک بھی رائے دہندے نہیں پہونچے تھے۔ بعض پولنگ اسٹیشنوں میں 7 بجے مقررہ وقت پر رائے دہی شروع ہوئی لیکن یہ دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ صبح 9 بجے سے دوپہر ایک بجے تک پرانے شہر کے اسمبلی حلقہ جات میں رائے دہی سے متعلق عوام میں کوئی جوش و جذبہ نہیں دیکھا گیا۔ سیاسی پارٹیوں کے امیدوار پولنگ اسٹیشنوں پر دورہ کرتے ہوئے حیرت میں تھے کہ رائے دہندے گھروں سے نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے رائے دہی میں اضافہ کے لئے کارکنوں کی ٹیمیں تشکیل دی تھیں لیکن یہ کارکن بھی رائے دہندوں کو گھر سے نکال کر پولنگ اسٹیشن پہونچانے میں ناکام ثابت ہوئے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اکثریتی طبقہ کے علاقوں میں صبح سے ہی رائے دہندوں کی قطاریں دیکھی جارہی تھیں اور مسلم اکثریتی علاقوں میں عوام کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ رائے دہی کے فیصد میں اضافہ کے لئے مذہبی رہنماؤں، جماعتوں، تنظیموں اور بعض رضاکارانہ اداروں کی جانب سے شعور بیداری مہم چلائی گئی۔ مساجد میں جمعہ کے موقع پر خطاب کے ذریعہ رائے دہندوں کو اُن کے مذہبی فریضہ سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے رائے دہندوں سے اپیل کی گئی کہ وہ جمہوریت کے استحکام اور اپنی پسند کے امیدوار کو منتخب کرنے کے لئے صبح کی اوّلین ساعتوں میں رائے دہی میں حصہ لیں لیکن اِن اپیلوں کا کوئی اثر نہیں دیکھا گیا۔ رائے دہندوں سے جب عدم دلچسپی کی وجوہات کے بارے میں بات چیت کی گئی تو وہ موجودہ روایتی قیادت سے مایوس نظر آئے۔ رائے دہندوں کا کہنا تھا کہ بھلے ہی ہم اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دیں لیکن لمحہ آخر میں بوگسنگ کے ذریعہ مقامی جماعت اپنے امیدوار کو کامیاب بناتی ہے۔ ایسے میں قطار میں ٹھہر کر رائے دہی میں حصہ لینے سے کیا فائدہ۔ عوام کا یہ احساس ہے کہ مقامی جماعت نے ہمیشہ بوگس رائے دہی پر زیادہ اور رائے دہندوں پر کم بھروسہ کیا ہے۔ بیشتر افراد نے مجلس کے امیدواروں پر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ عوام کا کہنا تھا کہ مجلس نے عوام کی خواہشات اور اُمنگوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے وفاداروں کو عوام پر مسلط کردیا ہے۔ عوام کے ناپسندیدہ امیدواروں کے نتیجہ میں پرانے شہر کے رائے دہندوں نے خود کو گھروں تک محدود رکھا اور لاکھ کوششوں کے باوجود وہ رائے دہی میں حصہ لینے کے لئے پولنگ اسٹیشن نہیں پہونچے۔ چندرائن گٹہ اور بہادر پورہ میں مجلس کو کوئی خاص مقابلہ درپیش نہیں تھا باوجود اس کے وہاں پولنگ اسٹیشن سنسان دکھائی دے رہے تھے۔ چندرائن گٹہ کے امیدوار اکبر اویسی ہیں جو مجلس کے مقبول ترین قائد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ چارمینار، بہادر پورہ، نامپلی اور یاقوت پورہ میں مجلس کے امیدواروں کے بارے میں عوام کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ انتخابی مہم کے دوران مجلسی قیادت نے عوام کی ناراضگی کو محسوس کرلیا تھا لیکن اُنھیں لمحہ آخر میں بوگس رائے دہی پر بھروسہ دکھائی دیا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ دن دور نہیں جب رائے دہندے اپنی ناراضگی کا اظہار نوٹا پر بٹن دباتے ہوئے کریں گے۔ پرانے شہر میں سہ پہر 3 بجے کے بعد مقامی جماعت نے اپنی ٹولیوں کو متحرک کرتے ہوئے منظم انداز میں بوگس رائے دہی انجام دی اور پولیس اور الیکشن کا عملہ تماشائی بنا رہا۔