پروفیسر خان کی گرفتاری نے بی جے پی کو بے نقاب کردیا

   

lکیا حکومت سے سوال پوچھنا بھی جرم ہے؟: صدر کانگریس ملکارجن کھرگے
lسپریم کورٹ علی خان محمود آباد کی درخواست پر سماعت کیلئے راضی‘ آج یا کل سماعت
نئی دہلی ۔19؍مئی ( ایجنسیز ) پہلگام دہشت گردانہ حملہ اور ’آپریشن سندور‘ کے بعد اب ان لوگوں کے خلاف بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں کارروائی ہو رہی ہے، جنہوں نے حکومت سے سوال کیا۔ اس فہرست میں پروفیسر علی خان محمود آباد کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔ آپریشن سندور پر جیسے ہی پروفیسر علی خان محمود آباد نے بیان دیا، ان کے خلاف پہلے تو ایف آئی آر درج کی گئی اور اس کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ بڑی تعداد میں پروفیسر علی خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کیا حکومت سے سوال پوچھنا بھی جرم ہے؟ کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری پر سوال اٹھاتے ہوئے ایکس پر ایک پوسٹ کیا ہے۔ملکارجن کھرگے نے لکھا کہ کانگریس ہمیشہ اپنے مسلح افواج، بیوروکریٹس، ماہرین تعلیم، دانشوروں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ میں کسی بھی شخص کی کردار کشی، بدنامی، ٹرولنگ، ہراساں کرنے اور غیرقانونی طور پر کی گئی گرفتاری اور کسی بھی کاروباری ادارے کی توڑ پھوڑ کی مذمت کرتا ہوں خواہ وہ سماج دشمن عناصر کے ذریعہ ہو یا سرکاری ریاستی مشنری کے ذریعہ۔کھرگے کے مطابق اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آبادی کی گرفتاری سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کسی بھی رائے سے کتنی خوف زدہ ہے جو اسے پسند نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ ایک سلسلہ وار ردعمل کا نتیجہ ہے جو ہمارے شہید بحریہ افسر کی غمزدہ بیوہ، ہمارے خارجہ سیکریٹری اور ان کی بیٹی کو نشانہ بنانے اور بی جے پی کے ایک وزیر کے ذریعہ ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دے رہی ایک کرنل کیلئے کی گئی قابل مذمت تذلیل آمیز تبصرے سے شروع ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلح افواج کے خلاف نفرت انگیز بیان دینے والے ایم پی کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر کو برخاست کرنے کے بجائے، بی جے پی۔آر ایس ایس یہ کہانی گھڑنے میں لگے ہیں کہ جو کوئی بھی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے حکومت سے سوال کرتا ہے یا قوم کی خدمت میں اپنا پیشہ ورانہ فرض ادا کرتا ہے اس کے وجود کیلئے خطرہ ہے۔ کھرگے کے مطابق مسلح افواج اور حکومت کی حمایت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حکومت سے سوال نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس پارٹی کے لیے قومی اتحاد سب سے بڑھ کر ہے لیکن بی جے پی کو اس وہم میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ حالیہ واقعات کی آڑ میں آمریت کو فروغ دے سکتی ہے۔دوسری جانب سپریم کورٹ پیر 19 مئی کو علی خان محمود آباد کی عرضی پر سماعت کرنے کیلئے راضی ہو گئی ہے۔ عرضی کو منگل یا چہارشنبہ کو سماعت کے لیے درج کیا جائے گا۔ علی خان محمود آباد ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ ڈپارٹمنٹ آف پولیٹیکل سائنس کے ہیڈ ہیں۔ 8 مئی کو کی گئی پوسٹ میں انھوں نے لکھا تھا کہ بہت سارے دائیں بازو کے مبصرین کرنل صوفیہ کی تعریف کر رہے ہیں یہ دیکھ کر میں خوش ہوں۔ لیکن یہ لوگ شاید اسی طرح سے ماب لنچنگ کے متاثرین، من مانے ڈھنگ سے بلڈوزر چلانے اور بی جے پی کی نفرت کے شکار لوگوں کو لے کر بھی آواز اٹھا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو بھی ہندوستانی شہری کے طور پر تحفظ فراہم کیا جائے۔ نہیں تو یہ صرف اور صرف منافقت ہے۔انہوں نے لکھا کہ حکومت جو دکھانے کی کوشش کر رہی ہے اس کے مقابلے میں عام مسلمانوں کے سامنے زمینی حقیقت مختلف ہے۔ پروفیسر علی خان نے اپنی پوسٹ کے آخر میں ترنگے کے ساتھ ’جے ہند‘ لکھا۔