پنجہ تو رہ گیا ‘ زمین غائب ہوگئی

   

پٹہ جات کی تقسیم روکنے کی ضرورت ۔ کرایہ دار بنایا جائے تو آمدنی متوقع
حیدرآباد۔6۔جون۔(سیاست نیوز) شہر حیدرآباد میں پنجہ گٹہ کا ’پنجہ ‘تو رہ گیا لیکن اس پنجہ کے تحت موقوفہ 12ہزار 646مربع گز انتہائی قیمتی اراضی غائب ہوچکی ہے اور وقف بورڈ برسہا برس سے قبضہ ہوچکی اس اراضی کے تحفظ میں خواب غفلت کا شکار ہے۔ تشکیل تلنگانہ کے وقت تلنگانہ راشٹرسمیتی نے وقف بورڈ کو عدالتی اختیارات تفویض کرنے اور ہندو انڈومنٹ کے طرز پر کمشنریٹ بنانے کاوعدہ کیا تھا لیکن دونوں وعدوں پر عمل آوری نہیں کی جاسکی ۔ تلنگانہ وقف بورڈ کے ریکارڈس میں موجود پنجہ گٹہ کے قیمتی علاقہ میں 12ہزار مربع گز سے زائد اراضی پر نہ صرف خانگی قبضہ جات ہیں بلکہ حکومت کے محکمہ تعلیم کی جانب سے اس اراضی پر سرکاری اسکولوں کی تعمیر کے علاوہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے کمیونیٹی ہال بھی تعمیر کئے ہیں اور اب حکومت کی جانب سے اراضیات پر قابضین کو باقاعدہ بنانے جاری جی او 58کے تحت پنجہ گٹہ کی موقوفہ اراضی پر موجود سینکڑوں افراد کو پٹوں کی اجرائی شروع ہونے جارہی ہے ۔ محکمہ مال کی جانب سے اگر اس موقوفہ اراضی پر پٹوں کی اجرائی عمل میں لائی جاتی ہے تو انتہائی قیمتی گنجان آبادی والے علاقہ میں موجود 12ہزار مربع گز موقوفہ اراضی کو حاصل کرنا وقف بورڈ کیلئے ناممکن ہوجائے گا۔ پنجہ گٹہ کے تحت موقوفہ اس اراضی 1989 کے گزٹ میں اندراج موجود ہے اور اس اراضی کا ریکارڈ ’کتاب الاوقاف‘ میں بھی ہے اس کے باوجود برسہا برس سے جاری اس اراضی پر قبضوں کو روکنے میں اب تک کے وقف بورڈ ناکام رہا ہے لیکن اب جبکہ حکومت کی جانب سے جی او 58 کے تحت پٹوں کے الاٹ کئے جانے کی منصوبہ بندی کی جار ہی ہے موجودہ وقف بورڈ کے ذمہ دار بالخصوص صدرنشین جناب محمد مسیح اللہ خان اور چیف اکزیکیٹیو آفیسر جناب سید خواجہ معین الدین اس جائیدادپر موجود قابضین کو پٹہ کی اجرائی سے روکنے کے اقدامات کرکے انہیں وقف بورڈ کا کرایہ دار بنانے کے اقدامات کرتے ہیں تو وقف بورڈ کو انتہائی قیمتی علاقہ میں کروڑہا روپئے مالیتی جائیدادکو واپس حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوگی اور قلب شہر میں اس اراضی پر پٹوں کی اجرائی سے حکومت کو روکنے فوری مکتوبات روانہ کرتے ہوئے محکمہ مال کو اس جانب سے متوجہ کرواتے ہوئے ’پنجہ گٹہ‘ کی موقوفہ اراضی پر پٹہ جاری نہ کرنے کی ہدایات جاری کرنی چاہئے ۔