پولیس انکاونٹر ، فرضی ، انتقامی کارروائی ، تلنگانہ حکومت اور پولیس انصاف کے کٹہرے میں !

,

   

نعشوں کو فوری حوالے کرنے پولیس کی درخواست ، نقص امن کا خطرہ ، مہلوکین کے ورثا نعشیں حاصل کرنے تیار نہیں ، قومی انسانی حقوق کمیشن کی ٹیم کا دورہ اور معائنہ

چیف جسٹس آف انڈیا بوبڈے کا ریمارک ، چیف منسٹر کے سی آر کے لیے دھکہ
انکاونٹر فرضی ، آزادانہ تحقیقات کرانے سپریم کورٹ میں دو درخواستیں داخل
نارائن پیٹ میں ایک مہلوک کی حاملہ بیوہ کا احتجاج

حیدرآباد ۔ 7 ۔ دسمبر : ( سیاست نیوز ) : حکومت تلنگانہ اور پولیس کو دیشا عصمت ریزی اور قتل کیس میں 4 ملزمین کو انکاونٹر کر کے ہلاک کئے جانے کا واقعہ کے متعلق کئی سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ پولیس انکاونٹر کو فرضی قرار دینے والوں نے اس کارروائی کو انصاف کا خون بتایا ہے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس شرد اروند بوبڈے نے اس انکاونٹر کو انتقام کی نیت سے کی گئی کارروائی سے تعبیر کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انتقام کی نیت سے کئے گئے انکاونٹر کو کبھی انصاف قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ انتقام کی شکل میں انصاف نہیں کیا جانا چاہئے ۔ انکاونٹر کے فوری بعد تلنگانہ ہائی کورٹ نے 4 مہلوکین کی نعشوں کو 9 دسمبر تک محفوظ کردینے کا حکم دیا ہے ۔ پولیس نے اس حکم نامے کے جواب میں عرضی داخل کرتے ہوئے 4 نعشوں کو فوری پولیس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی سطح پر اس انکاونٹر کے خلاف برہمی پیدا ہورہی ہے ۔ مہلوکین کے ورثا نے انصاف کے حصول کا عزم ظاہر کرتے ہوئے مورچے نکالنے کا ارادہ ظاہر کیا اور مہلوکین کی اس وقت تک آخری رسومات ادا نہ کرنے کا اعلان کیا جب تک ان سے انصاف نہ ہو اور اس طرح کے کیسوں میں جیلوں میں محروس مجرمین کا بھی انکاونٹر نہ کیا جائے ۔ پولیس کو اندیشہ ہے کہ اس انکاونٹر کے بعد ایک خاموش طوفان اٹھے گا نقص امن کا خطرہ پیدا ہوگا ۔ تلنگانہ حکومت کے خلاف بھی علاقائی اور قومی سطح پر برہمی کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اس انکاونٹر کو لے کر فکر میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں ۔ کیوں کہ انسانی حقوق کمیشن کی ٹیم کے دورہ کے بعد جو باتیں سامنے آرہی ہیں اس سے انکاونٹر ایک انتقامی کارروائی اور فرضی ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس انکاونٹر کے خلاف سپریم کورٹ میں دو درخواستیں بھی داخل کی گئی ہیں ۔ درخواست گذاروں نے اس انکاونٹر کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔ ایک درخواست دو وکلاء جے ایس منی اور پردیپ کمار یادو نے اور دوسری درخواست منوہر لال شرما نے دائر کی ہے ۔ پہلی درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پولیس ٹیم کے سربراہ سمیت انکاونٹر میں شامل تمام پولیس ملازمین کے خلاف ایف آئی آر درج کروا کر جانچ کرائی جانی چاہئے ۔ درخواستوں میں سی بی آئی ، ایس آئی ٹی یا کسی اور دیگر غیر جانبدار ایجنسی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے کیوں کہ حکومت تلنگانہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ قبل ازیں قومی انسانی حقوق کمیشن کی ٹیم محبوب نگر پہونچ کر اس انکاونٹر کا جائزہ لیا ۔ آج صبح حیدرآباد پہونچنے والی 4 رکنی ٹیم نے محبوب نگر گورنمنٹ ہاسپٹل کا معائنہ کیا ۔ جہاں شاد نگر دیشا انکاونٹر میں ہلاک مہلوکین کی نعشیں رکھی گئی ہیں ۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے انکاونٹر کا از خود نوٹ لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ این ایم آر سی کی ٹیم میں فارنسک ماہرین بھی شامل تھے جنہوں نے تقریبا تین گھنٹے محبوب نگر کے سرکاری ہاسپٹل میں گذارے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کی جانچ کی ۔ اس کے علاوہ مہلوکین کے جسم پر موجود گولیوں کے نشانات کا بھی جائزہ لیا گیا اور ہر پہلو سے نعشوں کی جانچ کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم رپورٹ کا بہ غور مشاہدہ کیا گیا۔ اس موقع پر گاندھی جنرل ہاسپٹل کے فارنسک ماہرین کی ٹیم کو بھی طلب کرلیا گیا تھا ۔ گاندھی کے فارنسک ماہرین اور قومی انسانی حقوق کمیشن کے فارنسک ماہرین میں کافی دیر تک تبادلہ خیال جاری رہا ۔ اور دونوں ہی ماہرین کی ٹیموں نے دستاویزات کی جانچ کی ۔ ذرائع کے مطابق انسانی حقوق کمیشن کے ارکان نے اس موقع پر مہلوکین کے افراد خاندان سے بات چیت کے دوران کے بیانات کو بھی قلمبند کیا گیا ۔ اس کے بعد قومی انسانی حقوق کمیشن کی ٹیم نے انکاونٹر کے مقام کا معائنہ کیا اور اس مقام کا بھی جائزہ لیا جائے گا جہاں ان 4 ملزمین کو ہلاک کیا گیا ۔ این ایچ آر سی کی ٹیم اپنی ساری توجہ شواہد کو اکٹھانے کرنے اور گواہوں کی تلاش پر منحصر کررہی ہے ۔ ٹیم انکاونٹر کی وجوہات کا پتہ چلانے کے لیے ہر زاویہ سے کیس کی چھان بین کررہی ہے اور ملزمین کی گرفتاریوں کے بعد سے انکاونٹر تک کے عمل کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ ذرائع کے مطابق انکاونٹر سے قبل ملزمین کی مزاحمت اور پولیس پر حملہ کے بیان کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے کہ آیا اس وقت جب سین ریکنٹراکشن پر پولیس عملہ ملزمین کے ساتھ پہونچا تو اس وقت کیا ہوا اور کیا روداد تھی ۔ بتایا جاتا ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن کی ٹیم تحقیقات کے بعد روانہ ہوگئی ۔ قومی سطح پر اہم سیاسی قائدین نے پولیس کارروائی پر کئی سوال اٹھائے ہیں ۔ انکاونٹر کے تعلق سے پولیس کے دعویٰ کو بھی مشکوک بتایا ہے ۔ کانگریس کے سینئیر لیڈر کپل سبل نے کہا کہ تلنگانہ انکاونٹر طالبان طرز کا انصاف بن گیا ہے جس سے عدالتیں غیر کارکرد بن جائیں گی ۔۔