راویش کمار
گزشتہ 2 فبروری کو ملک بھر سے ہزاروں لوگ دہلی میں پارلیمنٹ کے پاس جمع ہوئے، جنھیں ’پرل اگروٹیک کارپوریشن لمیٹیڈ‘ (PACL) نے لوٹا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان کا سب سے بڑا چٹ فنڈ گھوٹالہ ہے۔ ہندوستان کے بھولے بھالے سرمایہ کاروں کو دھوکہ باز اسکیمات کے ذریعے 49,100 کروڑ روپئے کا ’چونا‘ لگایا گیا۔ 2 فبروری 2016ء کو سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ کمپنی کے اثاثے قرق کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کی تمام رقم واپس کردی جائے۔ اُس حکمنامہ کو جب تین سال گزر گئے تو ہزاروں لوگ دہلی میں جمع ہوگئے۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کی تین سال سے تعمیل نہیں ہوئی ہے۔ کیا یہ حقیقت کا بنگال میں سی بی آئی اور ریاستی حکومت کے درمیان رسہ کشی سے کوئی ربط ہے؟
متاثرہ لوگوں کی تائید و حمایت میں شرد یادو، سیتارام یچوری، جگنیش میوانی، کانگریس لیڈر نانا پتولے وغیرہ سامنے آئے اور مخاطب کیا۔ راہول گاندھی اور اروند کجریوال بھی آئے مگر کچھ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بی جے پی سے کوئی نہیں آیا حالانکہ اُن کے قائدین کو میمورنڈم بھی دیا گیا تھا۔ بی جے پی نے 9 جنوری کو ایم پیز کو یادداشت دی تھی کہ وہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں اور 2 فبروری کی ریلی میں شرکت کریں۔ پھر بھی بی جے پی سے کوئی نہیں آیا۔ حتیٰ کہ کسی بی جے پی ایم پی نے پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ نہیں اٹھایا۔ کانگریس لیڈر ڈاکٹر کرن سنگھ نے وقفہ صفر میں مسئلہ اٹھایا۔ تین دیگر ایم پیز بشمول بھگونت مان نے بھی یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں اٹھایا لیکن کچھ نہیں ہوا۔
یوگیندر یادو کو کسانوں کیلئے جدوجہد کے دوران جب چٹ فنڈ متاثرین کی مشکل کا اندازہ ہوا تو انھوں نے متاثرین کیلئے مہم شروع کی۔ یوگیندر نے کہا کہ زیادہ تر ناخواندہ عورتیں فرضی اسکیمات کا شکار ہوئی ہیں۔ وہ اپنی بپتا سناتے ہوئے رو پڑتی ہیں، انھوں نے یہ سرمایہ اپنے شوہر سے چھپا کر لگایا تھا۔ اب سب کچھ ڈوب چکا ہے۔ سی بی یادو نے یہ تمام معلومات فراہم کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دھوکہ باز کمپنی نے 70 لاکھ ایجنٹ بنائے۔ ان کو تک معلوم نہیں تھا کہ کمپنی اس طرح کا دھوکہ دے گی۔ کئی جگہوں پر ایجنٹوں کے مکان اور اراضی چھین لئے گئے ہیں۔ مویشی تک نہیں چھوڑے گئے۔ کئی لوگوں نے ذلت محسوس کرتے ہوئے خودکشی کرلی، لیکن کمپنی کا کچھ نہیں بگڑا۔ یادو نے کہا کہ پی اے سی ایل کے علاوہ تقریباً 350 چٹ فنڈ کمپنیاں 10 کروڑ عوام کو لوٹ چکی ہیں۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کس میڈیا نے ان ہزاروں افراد کی بپتا کو اپنے پاس جگہ دی۔ دی وائر، نیوزکلک ویب سائٹ، نیوز چیانل 24×7 نے اس بارے میں طویل رپورٹ بنائی ہے۔ عوام سے بات چیت کا ایک ویڈیو کلپ ’یوٹیوب‘ پر دستیاب ہے۔ آپ PACL کے نام سے تلاش کرسکتے ہیں۔
1982ء میں پی اے سی ایل قائم ہوئی جس کی کئی ذیلی کمپنیاں ہیں۔ پہلی بار 1997ء میں سیبی (SEBI) نے اس کمپنی کے خلاف کیس دائر کیا تھا۔ 2003ء میں راجستھان ہائی کورٹ میں سیبی نے اس کمپنی کے خلاف کیس جیتا۔ آپ پتہ لگا سکتے ہو کہ کن وکلاء نے یہ کیس لڑا؟ تاہم، 2013ء میں سپریم کورٹ نے راجستھان ہائی کورٹ کا حکمنامہ منسوخ کرتے ہوئے سیبی کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے کیلئے کہا۔ سیبی کو پتہ چلا کہ اجازت کے بغیر اس کمپنی نے اجتماعی بچت اسکیم چلائی اور تقریباً 60 ملین عام لوگوں کی رقم حاصل کرلی۔ اس معاملے کا سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آر ایم لودھا نے جائزہ لیا۔ عدالت نے سیبی کو حکم دیا کہ اس کمپنی کے پروموٹرز نے آسٹریلیا میں کئی اثاثے بنائے ہیں جو کالادھن ہے جسے واپس لانے کی سعی کی جائے۔ یہ کمپنی اپنی طاقت اور پیسے کے بل بوتے پر عدالتوں میں سیبی کو ہمنوا بنانے کی کوششیں کرتی رہی۔ ہر بار سیبی نے جیت درج کرائی اور کمپنی کے خلاف کارروائی کا حکم حاصل کیا۔ سیبی نے 11 ڈسمبر 2016ء کو کارروائی شروع کی۔ ان پروموٹرز پر 49,100 کروڑ روپئے واپس نہ کرنے کے الزامات ہیں۔ جب یہ رقم واپس نہ ہوئی، تب جسٹس لودھا نے چار ذیلی کمپنیوں کی نشاندہی کی تاکہ اُن کے ذریعے15-20 ہزار کروڑ روپئے جٹائے جاسکیں۔ سپریم کورٹ نے اندرون چھ ماہ رقم واپس کردینے کا حکم دیا۔ لیکن چند جائیدادیں ہی ہراج کی گئیں اور تقریباً 1100 کروڑ روپئے واپس حاصل ہوئے۔ لودھا کمیٹی کے مطابق اس کمپنی کے اثاثہ جات 1.86 لاکھ کروڑ روپئے ہیں۔ مختلف وجوہات ہیں کہ کیوں پراپرٹی کا آکشن نہیں کیا گیا۔
بے شک، شردھا چٹ فنڈ کی رقم بھی لوٹی گئی۔ لیکن تحقیقات کرنے اور خاطیوں کو سزا دینے کی شدید خواہش کے بجائے اس پر سیاست چلی جارہی ہے۔ اگر خاطی کو سزا دلانے کا ارادہ صاف ہوتا تو شردھا اسٹنگ کیس کی بنیاد پر گرفتار مکل رائے کو بی جے پی میں قبول نہ کیا جاتا۔ جب تک مکل رائے ترنمول کانگریس میں تھے، اُن کے خلاف مختلف نوعیت کے کیس عائد کئے جاتے رہے۔ پرانے کیسوں کی فائیلیں کھولی گئیں۔ اب سب کچھ ٹھیک ہے۔ وہ دیانتدار لیڈر بن چکے ہیں کیونکہ بی جے پی کی آغوش میں آگئے ہیں۔ اب (کولکاتا) پولیس کمشنر کو نیا دشمن بنایا گیا ہے تاکہ اس کیس کو سیاسی انتقام کا ذریعہ بنایا جاسکے۔ ان تمام اسکینڈلوں کا کھیل جاری ہے۔ ہم نے دہلی میں دیکھا ہے کہ کس طرح زائد از 111 کیس عام آدمی پارٹی کے ایم ایل ایز اور قائدین کے خلاف درج رجسٹر کئے گئے۔ بعد میں زائد از 60 کیس فاسٹ ٹریک کورٹ میں خارج ہوگئے۔ کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس طرح کی حرکتوں اور قانونی داؤپیچ کے ذریعے میڈیا کو مصروفیت کیلئے قانونی مسائل فراہم کردیئے جاتے ہیں کہ وہ اسی پر مباحث کرتے رہیں۔
پروپگنڈہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے وقت کو اُلجھایا جارہا ہے۔ جو واقعی غریب ہیں ان سے انصاف کیلئے کوئی اقدامات نہیں ہورہے ہیں۔ آپ نے کتنی دفعہ پی اے سی ایل کی متاثرہ ہزاروں فیملیوں کے تعلق سے سنا ہے، جو انصاف کیلئے در، در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کون ہے جو چٹ فنڈ کیس کی چھان بین کے ذریعہ غریبوں کو رقم کی واپسی میں حائل ہے۔ ایک عام شہری کی حیثیت سے ایسے واقعات کو ذہن نشین رکھیں اور سبق حاصل کریں۔ مفادات حاصلہ کی طرف سے ایسی کوششیں ہورہی ہیں کہ یہی معاملہ مباحث میں چھایا رہے۔ اس طرح کے مباحث ان کیلئے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دونوں طرف عوام کو اُلجھن ہی مل رہی ہے، ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے۔
ravish@ndtv.com