چیف منسٹر ریونت ریڈی اور کے ٹی آر کے درمیان اسمبلی میں نوک جھونک

   

تصرف بل پر گرما گرم مباحث، بجٹ میں تضاد، سابق حکومت کے کارنامے نظرانداز، بی آرایس رکن کا الزام

حیدرآباد۔/31 جولائی، ( سیاست نیوز) تلنگانہ قانون ساز اسمبلی میں تصرف بل پر مباحث کے دوران چیف منسٹر ریونت ریڈی اور بی آر ایس رکن کے ٹی راما راؤ کے درمیان گرما گرم مباحث ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کی حکومتوں کی ناکامیوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ مباحث کا آغاز کرتے ہوئے بی آر ایس رکن کے ٹی راما راؤ نے حکومت پر انتخابی وعدوں کی تکمیل میں ناکامی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ 6 ضمانتوں اور دیگر انتخابی وعدوں کے بارے میں حکومت کا بجٹ خاموش ہے۔ بجٹ میں وعدوں کی تکمیل کیلئے فنڈز فراہم نہیں کئے گئے۔ کے ٹی آر نے ریونت ریڈی کو چیلنج کیا کہ حکومت کی جانب سے اگر ایک نوجوان کو بھی روزگار فراہم کرنے کا ثبوت پیش کیا جائے تو اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیں گے۔ انہوں نے سابق بی آر ایس حکومت کے خلاف برسراقتدار پارٹی کی الزام تراشی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دس سالہ دور حکومت میں اگر بے قاعدگیاں ہوئی ہیں تو حکومت تحقیقات کیلئے آزاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں تعمیری اپوزیشن کے طور پر بی آر ایس حکومت سے تعاون کرے گی۔ کے ٹی آر نے کہا کہ بجٹ میں ایک طرف ریاست کے مستحکم مالی موقف کا اعتراف کیا گیا تو دوسری طرف سابق بی آر ایس حکومت پر ریاست کو مقروض بنانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں انفرادی مجموعی آمدنی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور جی ڈی پی کے معاملہ میں تلنگانہ ملک کی نمبر ون ریاست ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ مستحکم معاشی موقف بی آر ایس کا کارنامہ نہیں تو کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے مقررہ حد کے تحت قرض حاصل کیا تھا اور قرض فلاحی اور ترقیاتی اسکیمات پر استعمال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غربت کے خاتمہ میں تلنگانہ ملک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ریاست کے بارے میں منفی تشہیر سے گریز کریں کیونکہ اس سے ریاست میں سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔ کے ٹی آر نے کہا کہ الیکشن جیتنے کے لئے کانگریس نے وعدوں کی بھرمار کردی تھی اور کامیابی کے بعد عمل آوری کے سلسلہ میں پریشان ہے۔ پنشن کی رقم میں اضافہ، خواتین کو ماہانہ 2500 روپئے کی امداد، ایک سال میں دو لاکھ جائیدادوں پر تقررات جیسے اہم وعدوں کی تکمیل نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ریونت ریڈی حکومت 30 ہزار جائیدادوں پر تقررات کا دعویٰ کررہی ہے لیکن یہ تقررات بی آر ایس دور حکومت میں طئے کئے گئے تھے جبکہ کانگریس حکومت نے صرف احکامات تقرر جاری کئے ہیں۔ انہوں نے تقررات سے متعلق جاب کیلنڈر کی اجرائی میں تاخیر پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہر معاملہ میں کے سی آر کو نشانہ بناتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کہیں بے قاعدگیاں ہوئی ہیں تو بی آر ایس تحقیقات کے حق میں ہے اور جو بھی قصوروار پائے جائیں ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ہر بات پر کے سی آر کو نشانہ بنانے سے گریز کرے۔کے ٹی آر کی تقریر کے دوران ڈپٹی چیف منسٹر بھٹی وکرامارکا ، ریاستی وزراء ڈی انوسیا سیتکا، پونم پربھاکر اور ڈی سریدھر بابو نے وقفہ وقفہ سے مداخلت کرتے ہوئے حکومت پر عائد کردہ الزامات کا جواب دیا۔ چیف منسٹر ریونت ریڈی نے مداخلت کی اور کہا کہ کے ٹی آر تصرف بل پر مباحث کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ کے ٹی آر کی تقریر کے دوران کئی مرتبہ کانگریس ارکان نے احتجاج کیا اور حکومت کے خلاف الزام تراشی سے گریز کا مشورہ دیا۔1