بیجنگ: چین کے صوبہ سنکیانگ میں بیجنگ نے ہزاروں اویغور اور دیگر اقلیتی مسلمانوں کومبینہ طور پر حراستی کیمپوں میں قید رکھا ہے جنہیں حکام تربیتی مراکز قرار دیتے ہیں۔گذشتہ دنوں دنیا بھر کے 17ذرائع ابلاغ کے بڑے اداروں نے صحافیوں کی ایک تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم انویسٹی گیٹو جرنلسٹ (آئی سی آئی جے) کی جمع کی گئی کچھ دستاویزات کو شائع کیا گیا ہے۔ ان دستاویزات سے متعلق یہ دعوی کیا جارہا ہیکہ وہ لیک دستاویزات ہیں جن میں چینی حکومت نے اس حراستی مراکز کے بارے میں احکامات جاری کئے تھے۔ ان لیک دستاویزات کے مطابق ان حراستی مراکز کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق ان مراکز پر تقریبا ایک لاکھ ایغور افراد قید ہیں جبکہ دیگر اقلیتی طبقہ کے لوگ بھی یہاں قید بتائے گئے ہیں۔ان قیدیوں پر ہر وقت نظر رکھی جاتی ہے۔ یہاں تک رفع حاجات کے موقع پر بھی ان پر نظر رکھی جاتی ہے، تاکہ وہ فرار نہ پائے۔ لیک دستاویزات کے مطابق ان مراکز کے عملہ کو قیدیوں سے زیادہ بات چیت نہ کرنے ہدایت دی جاتی ہے۔ یہاں کام کرنے والے عملہ کو موبائیل فون اور کیمرہ لانے کی اجازت نہیں ہے۔لیک دستاویزات میں محروس قیدیوں کو ”طلباء“ کا نام دیا گیا ہے۔

مراکز کا عملہ ان طلباء کے شب و روز کی کاریگری پر نظر رکھتا ہے او ران کے مصروفیات کا وقت متعین ہوتا ہے۔ حتی کہ ان کے بال کاٹنے کا بھی وقت مقرر ہے۔ دستاویزات کے مطابق ان مراکز میں قیدی باہر کسی سے رابطہ نہیں کرسکتے ہیں۔اگر کوئی قیدی کو بیماری یا کسی اور خاص وجہ سے مرکز چھوڑنا پڑے تو ایک شخص ان کے ساتھ رکھا جائے گا اور وہ اس پر کڑی نظر رکھے گا۔ دستاویزات کے مطابق مراکز میں ہر جگہ کیمرہ نصب ہیں جس کے ذریعہ ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی مشکوک سرگرمی میں پایا جاتا ہے تو عملہ فوری حرکت میں آجاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب لندن میں چین کے سفارتخانہ نے اس دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ”دی گارجین“اخبار یہ مبالغہ آرائی اور جھوٹ پرمبنی باتیں پھیلارہا ہے۔ واضح رہے کہ لندن کا دی گارجین اخبار بھی ان اداروں میں شامل ہیں جنہوں نے ان مبینہ لیک دستاویزات کو شائع کیا تھا۔