چین ۔ امریکہ تجارتی کشیدگی کے خاتمہ کا آئندہ چند ہفتوں میں اعلان

,

   

دونوں ممالک کے مذاکرات کار معاہدہ کو قطعیت دینے میں مصروف
معاہدہ کو قطعیت دینے کے بعد ہی جن پنگ سے ملاقات کرنے ٹرمپ کا اعلان

بیجنگ ؍ واشنگٹن ۔ 5 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) صدر چین ژی جن پنگ نے جمعہ کے روز ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ چین ۔ امریکہ معاشی معاہدہ کیلئے بات چیت اب سازگار ماحول میں داخل ہوگئی ہے اور اس جانب مثبت پیشرفت ہورہی ہے اور اس طرح اب کم سے کم یہ کہا جاسکتا ہیکہ دنیا کی دو اہم ترین معیشتوں کے درمیان جو تجارتی جنگ چل رہی ہے وہ اختتام پذیر ہوگی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ جن پنگ نے جو کچھ کہا وہ دراصل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو چین کے نائب وزیراعظم لیوہی کی جانب سے صدر کا دیا جانے والا پیغام تھا۔ لیوہی بات چیت کیلئے چینی وفد کی قیادت کررہے ہیں جسکے بعد دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ نو ماہ سے جاری تجارتی کشیدگی کے ختم ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ چین کے المونیم اور اسٹیل پر امریکہ نے ٹیکس کی بھاری شرح عائد کی تھی۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ یقینی طور پر ہوگی اور ہوا بھی یہی! چین نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے امریکی اشیاء پر کروڑہا ڈالرس کے ٹیکس عائد کردیئے۔ یاد رہیکہ چین امریکہ کے بعد دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور معیشت تصور کی جاتی ہے۔ لیوہی گذشتہ کچھ دنوں سے واشنگٹن میں ہی قیام کئے ہوئے ہیں جہاں وہ امریکہ کیساتھ چین کی تجارتی بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اسی دوران انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی اور جن پنگ کا پیغام انکے حوالے کردیا۔ جن پنگ فی الحال اس نکتہ پر زائد زور دے رہے ہیں کہ معاہدہ اس نوعیت کا ہونا چاہئے کہ جسکی تمام شقوں پر دونوں ممالک متفق ہوں اور جو دونوں ممالک کے مفاد میں ہو۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی تجارتی کشیدگی کو کم کرتے ہوئے معاہدہ کو جلد از جلد قطعیت دی جاسکتی ہے لہٰذا تجارتی بات چیت کی اصل روح مجروح نہیں ہونی چاہئے

اور وہ ہے باہمی مفاد۔ اس وقت جو صورتحال ہے اسکے تحت دونوں ممالک کے عوام بھی پُرامید ہیں کہ معاہدہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا اور دونوں ممالک میں تجارتی استحکام پیدا ہوگا۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہیکہ اس وقت صرف چین اور امریکہ کے عوام ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کے عوام بھی تجارتی بات چیت کی کامیابی کیلئے دعاگو ہیں کیونکہ دنیا کا ہر شخص یہی چاہتا ہیکہ اسے اپنی ضرورتوں کی اشیاء بہ آسانی اور سستے داموں دستیاب ہوں۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ نے بھی شاید پہلی بار اپنی پیشانی پر شکن لائے بغیر کہا کہ چین اور امریکہ دونوں ہی اب تجارتی معاہدہ کے قریب پہنچ چکے ہیں اور آئندہ تین چار ہفتوں میں کوئی ’’تاریخی‘‘ اعلان کیا جائیگا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ژی جن پنگ کیساتھ ان کی ملاقات صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدہ کو قطعیت دی جائے ورنہ ملاقات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ امریکہ چین پر یہ الزام عائد کرتا آرہا ہیکہ چین نے غیرمناسب تجارتی حکمت عملی اپنا رکھی ہے اور امریکی ٹیکنالوجی کا سرقہ بھی کر رہا ہے۔ مارکٹس میں بھی امریکہ کی غیرضروری مداخلت نے چین کو 375 بلین ڈالرس کے تجارتی خسارہ میں ڈبو دیا ہے جو کسی بھی چھوٹے ملک کے پورے سال کے بجٹ کی رقم کے برابر ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ تجارتی بات چیت یقینی طور پر مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اور ان نکات پر بھی باہمی رضامندی ہوئی ہے جنکے بارے میں قبل ازیں دونوں ممالک یہی سوچتے تھے کہ ان پر کبھی بھی باہمی رضامندی نہیں ہوسکے گی۔