کس کا شیرازہ بکھرتا ہے ابھی دیکھنا ہے

,

   

مودی بے قابو … اپوزیشن پر پابندیاں
مساجد پر بری نظریں… عدالتوں کا سہارا

رشیدالدین
مقابلہ چاہے کوئی ہو دونوں طرف کے کھلاڑی اور ٹیموں کو برابری کے مواقع حاصل ہونے چاہئے ۔ حقیقی معنوں میں مقابلہ اسی کو کہیں گے جب ریسلر ہوں کہ باکسرس دونوں ہر اعتبار سے کانٹے کی ٹکر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک کھلاڑی کو کھلا چھوڑ کر دوسرے کے ہاتھ پیر باندھ دیئے جائیں تو مقابلہ کا نتیجہ یکطرفہ رہے گا ۔ اسے فری اینڈ فیر مقابلہ نہیں کہا جاسکتا۔ ملک میں لوک سبھا چناؤ کی مہم عروج پر ہے لیکن صرف برسر اقتدار بی جے پی کو تمام سہولتیں، مراعات اور مواقع حاصل ہیں جبکہ مین اپوزیشن کانگریس کو مختلف تحدیدات کے ذریعہ مفلوج کردیا گیا ہے ۔ مقابلہ برابری کا ہو تو نتائج سے عوام کو دلچسپی ہوتی ہے لیکن یہاں تو انتخابی میدان میں مودی حکومت نے سارے اپوزیشن کو زنجیروں میں جکڑ دیا ہے ۔ ان سب کے باوجود فری اینڈ فیر الیکشن کا دعویٰ برقرار ہے۔ الیکشن چاہے کوئی ہو دولت کے بغیر مہم کا تصور محال ہے۔ ہندوستان میں الیکشن دن بہ دن مہنگے ہوچکے ہیں ۔ مجالس مقامی سے لے کر لوک سبھا چناؤ تک دولت کی ریل پیل کامیابی و شکست کا فیصلہ کرتی ہے۔ نریندر مودی نے تیسری مرتبہ کامیابی کے لئے اپوزیشن کو کمزور کرنے کی سازش تیار کی ہے ۔ کسی کو سی بی آئی ، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ تو کسی کو انکم ٹیکس کے ذریعہ فرضی اور جھوٹے مقدمات میں ماخوذ کرتے ہوئے جیلوں میں بند کیا جارہا ہے ۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی فی الوقت نشانہ پر ہیں۔ چیف منسٹر کجریوال اور دیگر سرکردہ قائدین جیلوں میں بند ہیں اور بعض دوسروں کی عنقریب گرفتاری کا اندیشہ ہے ۔ دوسری طرف کانگریس کے تمام بینک کھاتوں کو منجمد کرتے ہوئے انتخابی خرچ کیلئے ایک روپیہ بھی نکالنے سے روک دیا گیا ۔ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے مودی حکومت کے اشارہ پر ہی الیکشن سے عین قبل یہ قدم اٹھایا تاکہ ملک کی سب سے قدیم اور بڑی پارٹی کی مہم پھیکی پڑجائے۔ کسی جائز وجہ کے بغیر کھاتوں کو منجمد کرنے سے پارٹی قائدین کے دوروں کے اخراجات اور جلسوں اور ریالیوں کے خرچ کا انتظام نہیں ہو پائے گا ۔ امیدواروں کی پارٹی کی جانب سے کوئی مدد ممکن نہیں ہے۔ بینک اکاؤنٹس میں رقم تو موجود ہے لیکن خرچ کی اجازت نہیں۔ نریندر مودی نے دراصل کانگریس پر مالیاتی تحدیدات عائد کردیئے تاکہ انتخابی مہم بے جان ہوجائے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ اصل مقابلہ تو وہی ہے جب دونوں طرف مساوی مواقع ہوں ۔ نریندر مودی ’’اب کی بار 400 پار‘‘ کے نعرہ کو حقیقت میں تبدیل کرنے انتقامی جذبہ میں اندھے ہوچکے ہیں۔ انہیں کامیابی کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ مودی اینڈ کمپنی کے پاس الیکشن بانڈس سے حاصل کئی ہزار کروڑ خرچ کیلئے موجود ہیں۔ پارٹی کے اقتدار میں ہونے کے سبب سرکاری مشنری اور اہم اداروں پر بی جے پی کا مکمل کنٹرول ہے۔ فنڈس ، سرکاری مشنری اور جارحانہ فرقہ پرست عناصر بی جے پی کی اصل طاقت ہیں۔ کانگریس کو فنڈس کے معاملہ میں مفلوج کردیا گیا جبکہ عام آدمی پا رٹی کو انتخابی مہم کیلئے سرکردہ قائدین دستیاب نہیں ہیں۔ نریندر مودی اور ان کے ساتھی اقتدار کے نشہ میں یہ بھول رہے ہیں کہ جبر اور ظلم کا اقتدار دائمی نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کی آواز دبائی جاسکتی ہے لیکن عوامی انقلاب کو روکا نہیں جاسکتا۔ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اپوزیشن کو جیلوں میں بند کردیا تھا لیکن جیلوں سے ہی انقلاب کی صدا بلند ہوئی اور اندرا گاندھی اقتدار سے محروم ہوگئیں۔ جب کبھی ظلم حد سے تجاوز کرتا ہے تو انقلاب کی نئی تاریخ رقم کی جاتی ہے ۔ ظالم حکمراں کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ عوام کے ذہنوں میں نیا انقلاب برپا ہورہا ہے ۔ مودی کو اقتدار ، سرکاری مشنری ، دولت اور صنعتی گھرانوں کے سہارے پر بھروسہ ہے لیکن حقیقی بادشاہ گر یعنی رائے دہندے کیا فیصلہ دیں گے ، اس کا اندازہ تو بس نتائج کے وقت ہی ہوگا۔ جھوٹے وعدوں اور ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ کو برداشت کرسکتے ہیں لیکن جبر ، ظلم اور ہراسانی کی تائید ہرگز نہیں کی جا سکتی ۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ کی کامیابی سے مودی اینڈ کمپنی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ عوام نے من مانی کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ ملک کے رائے دہندے اور بالخصوص نوجوان نسل تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ باشعور بھی ہے اور وہ نریندر مودی اور بی جے پی کے تمام سیاسی کھیلوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انتخابی مہم میں نریندر مودی بے قابو دکھائی دے رہے ہیں۔ کل تک اپوزیشن کو اپنی جملہ بازی سے نشانہ بنانے والے نریندر مودی اب تو کانگریس اور دوسری اپوزیشن کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی عوام سے اپیل کر رہے ہیں۔ مودی غرور اور تکبر میں اس طرح بے تکی باتیں کر رہے ہیں یا پھر انہیں اندرونی طور پر شکست کا خوف لاحق ہوچکا ہے ؟ ہندوستان نے ایسے ہزاروں مودی دیکھے جو دوسروں کو مٹانے کی دھن میں خود صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور آج ان کا کوئی نام لیوا تک نہیں ہے۔ جس کانگر یس کو مٹانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ، وہی کانگریس جب آزادی کی لڑائی میں قربانیاں پیش کر رہی تھی ، اس وقت بی جے پی اور نریندر مودی کا وجود تک نہیں تھا ۔ کاش نریندر مودی قانون فطرت کو سمجھ پاتے جس کے تحت ہر عروج کو زوال یقینی ہے۔
سپریم کورٹ سے عام آدمی پارٹی کو کسی قدر راحت ملی ہے ، جب سنجے سنگھ کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ سنجے سنگھ کی رہائی کے بعد عام آدمی پارٹی کیڈر کے حوصلے ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچ گئے ۔ مودی حکومت کجریوال کو چیف منسٹر کے عہدہ سے ہٹانے کی فراق میں ہے۔ دستور میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ مرکزی حکومت کسی چیف منسٹر کو برطرف کردے۔ دستور نے چیف منسٹر کو اختیار دیا ہے کہ وہ جیل سے بھی حکومت کے فیصلے کرسکتے ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ میں دوسری مرتبہ کجریوال کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے چیف منسٹر کے عہدہ سے برطرف کرنے کی اپیل کی گئی ۔ عدالت نے درخواست کو مسترد کردیا اور دستوری حقوق کا حوالہ دیا ۔ الیکشن کے قریب آنے تک نریندر مودی حکومت دیگر ریاستوں میں اپوزیشن کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال کرسکتی ہے۔ مودی کو ایک طرف اپوزیشن انڈیا اتحاد سے خوف لاحق ہوچکا ہے تو دوسری طرف انتخابی ریالیوں میں عوام کی سردمہری نے ان کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ مودی اپنی جملہ بازی کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن رائے دہندوں پر اس کا اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ مودی نے انتخابی مہم میں شدت پیدا کرتے ہوئے عام جلسوں کے بجائے روڈ شو کو ترجیح دی ہے تاکہ رائے دہندوں سے رابطہ رہے۔ مودی نے اقتدار کے نشہ میں نہ صرف اپوزیشن بلکہ خود اپنی پارٹی میں سکنڈ گریڈ قیادت کو دفن کردیا ہے ۔ ہر قائد کا کوئی نہ کوئی متبادل ضرور ہوتا ہے لیکن بی جے پی میں مودی ہی سب کچھ ہیں اور کوئی بھی قائد دوسرے نمبر پر ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ نریندر مودی بھی طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور اگر انہیں کچھ ہوتا ہے تو پھر حکومت اور پارٹی کو سنبھالنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ بی جے پی نے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ذریعہ تیسری مرتبہ کامیابی کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ ملک میں تاریخی مساجد پر مندر ہونے کا دعویٰ پیش کرتے ہوئے عدالتوں کے سہارے قبضہ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی ہے ۔ کاشی اور متھرا کی مساجد اور عیدگاہ میں ایودھیا ایپی سوڈ کو دہرانے کی تیاریاں ہیں۔ وارانسی کی گیان واپی مسجد میں عدالت کی اجازت سے پوجا کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ متھرا کی عیدگاہ کا معاملہ عدالت میں زیر دوران ہیں۔ مدھیہ پردیش کی کمال مولا مسجد کا سروے شروع کیا گیا ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا مرکزی حکومت کے اشارہ پر کام کر رہا ہے۔ جس کسی مسجد کے سروے کا کام دیا جاتا ہے ، وہاں آرکیالوجیکل سروے کے عہدیداروں کو مندروں کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ 2014 کے بعد سے بی جے پی کو عبادتگاہوں کے معاملہ میں عدالتوں سے بڑی مدد ملی ہے۔ آج مساجد پر دعویدار ہے تو کل مسلمانوں کی تمام تاریخی یادگاروں پر مندر ہونے کا دعویٰ پیش کیا جائے گا۔ تاج محل اور قطب مینار کے مندر ہونے کا دعویٰ عدالتوں میں پہنچ چکا ہیں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ملک میں ہندو راشٹر کی تشکیل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور عبادتگاہوں کے علاوہ مسلمانوں کے مکانات پر بھی مندر کا بورڈ چسپاں کردیا جائے گا ۔ وارانسی کے مقامی جج نے ریٹائرمنٹ کے دن گیان واپی مسجد میں پوجا کی اجازت دے دی ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ سپریم کورٹ نے حقائق جاننے کے باوجود پوجا روکنے سے انکار کردیا۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے بابری مسجد کی اراضی رام مندر کے لئے الاٹ کردی تھی۔ بابری مسجد کا معاملہ بھی اسی طرح شروع ہوا تھا اورانجام ملک کے سامنے ہیں۔ معراج فیض آبادی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
کون پستی میں اترتا ہے ابھی دیکھنا ہے
کس کا شیرازہ بکھرتا ہے ابھی دیکھنا ہے