کس کو معلوم نہیں آپ کی نیت کیا ہے

   

سیاہ قانون۔ کیرالا حکومت سپریم کورٹ سے رجوع
مسلم قیادت پر سناٹا طاری۔ بی جے پی قائدین زہر اگلنے لگے

رشیدالدین
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اگرچہ ملک بھر میں احتجاج جاری ہے، لیکن کیرالا کی بائیں بازو حکومت نے بازی مارلی۔ سیاہ شہریت قانون کے خلاف ریاستی اسمبلی میں قرارداد منظور کرتے ہوئے دیگر ریاستوں کے لیے مثال قائم کرنے کے بعد دستوری حق کا استعمال کرتے ہوئے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والی پہلی ریاست کا اعزاز حاصل کرلیا۔پنجاب میں جہاں کانگریس کی حکومت ہے ، کیرالا کی پیروی کی اور اسمبلی میں سی اے اے کے خلاف قرارداد منظور کی اور سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا بھی اعلان کیا۔ کانگریس برسر اقتدار ریاستوں کے بشمول 11 ریاستوں نے شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف موقف اختیار کیا ۔ مرکز کی جانب سے منظورہ قوانین پر عمل آوری کے لیے ریاستیں پابند ہیں اور ان کو مرکزی قانون پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ہاں، دستور نے ریاستوں کو حق دیا ہے کہ اگر انہیں مرکزی قانون سے اختلاف ہو تو وہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ کیرالا حکومت نے اسمبلی میں قرارداد کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر اپنے دستوری حق کا استعمال کیا ہے۔ شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں وجین سرکار نے اپنی سنجیدگی کا ثبوت دیا جبکہ دیگر سکیولر ریاستیں صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کانگریس زیر اقتدار کسی بھی ریاست میں آج تک اسمبلی میں قرارداد منظور نہیں کی گئی۔ چیف منسٹر کیرالا مرکزی قانون اور این آر سی، این پی آر کے خلاف متحدہ جدوجہد کے لیے 11 غیر بی جے پی چیف منسٹرس کو مکتوب روانہ کرچکے ہیں لیکن تمام مصلحتوں کے اسیر اور ووٹ بینک سیاست پر عمل پیرا دکھائی دیئے۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن حکومتوں کو اندیشہ ہے کہ شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف شدت کی صورت میں اکثریتی ووٹ سے محروم ہوسکتے ہیں۔ کانگریس اور دیگر جماعتیں شہریت قانون اور این آر سی کی مخالفت اور احتجاج کرنے والوں کی تائید ضرور کررہی ہیں لیکن اسمبلی میں قرارداد کی منظوری میں تامل کیا جارہا ہے۔ ان پارٹیوں کا رویہ ’’100 گز واروں ایک گز نہ پھاڑوں‘‘ کے مصداق ہے۔ شہریت قانون کے خلاف سڑکوں پر اترنا اور اقلیتوں سے ہمدردی کا اظہار کافی نہیں بلکہ اپوزیشن ریاستوں کو اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے لیے مودی حکومت پر دبائو بڑھانا ہوگا۔ کانگریس، ٹی آر ایس اور دوسروں کو ڈبل گیم بند کرنا ہوگا۔ دوہرے معیارات کے بجائے کسی ایک طرف ہوجانا چاہئے۔ صرف خوش کرنے والے بیانات سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اپوزیشن کو جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس طرح این ڈی اے میں شامل ہونے کے باوجود نتیش کمار نے کیا ہے۔ انہوں نے این آر سی کے خلاف کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے ملک بھر میں عمل آوری کی مخالفت کی۔ مودی حکومت کے سیاہ قوانین کے خلاف اگر کوئی سڑکوں پر اترے ہیں تو وہ صرف بائیں بازو کی جماعتیں اور تنظیمیں ہیں۔ بائیں بازو نظریات کے حامل دانشور، سیول سوسائٹی کے ارکان، طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیموں کے سوا دوسری پارٹیوں کا احتجاج برائے نام اور صرف اخباری بیان بازی تک محدود ہے۔ حکومت کے فیصلوں کے خلاف کہیں سے کوئی آواز اٹھ رہی ہے تو وہ یونیورسٹیز ہیں۔ بعض دلت تنظیموں نے بھی خود کو احتجاج سے وابستہ کرلیا ہے۔ شہریت قانون ہو کہ این آر سی اس کا اصل نشانہ مسلمان ہیں لیکن افسوس قومی سطح کی مسلم سیاسی اور مذہبی قیادت بے حسی کا شکار ہے۔ اکابر، علماء، مشائخ اور مصلحین خواب غفلت کا شکار ہیں یا پھر حکومت کے خلاف آواز اٹھانے سے خوفزدہ ہیں۔ ایسے وقت جبکہ مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ پیدا کرتے ہوئے ان کا ملی تشخص خطرے میں ہے، بے باک ترجمانی اور رہنمائی کا فریضہ ادا کرنا مذہبی قیادتوں کی ذمہ داری ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ، ملی کونسل اور مسلم مجلس مشاورت، جمعیۃ العلماء کو میڈیا کے ذریعہ احتجاج درج کرانے کے بجائے میدان عمل میں آنا ہوگا۔ یہ تنظیمیں اور ان کے قائدین سیاسی امور میں اگرچہ سرگرم دکھائی دیتے رہے لیکن شہریت کو خطرہ جیسے سنگین مسئلہ پر عملی اقدام کے بجائے رسمی نوعیت کا احتجاج کررہے ہیں۔ ملک کے تین اہم دینی درسگاہوں کو دیوبند، بریلی اور پھلواری شریف سے مسلمانوں کی کوئی خاص رہنمائی نہیں کی گئی۔ جس طرح جدوجہد آزادی میں علماء کرام نے حصہ لیا تھا اسی طرح دوسری جدوجہد آزادی میں موجودہ مذہبی شخصیتوں کو رہنمائی کے لیے نکلنا ہوگا۔ اگر بے حسی اور سناٹے برقرار رہے تو مودی حکومت کو شہریت قانون، این آر سی اور این پی آر پر عمل آوری سے کوئی طاقت روک نہیں پائے گی۔ جس پر کشمیر میں 5 ماہ سے جاری تحدیدات کے چلتے عوام نے 370 کی برخواستگی کو بادل ناخواستہ ہی سہی قبول کرلیا ہے۔ اسی طرح مودی حکومت کو یقین ہے کہ شہریت قانون کے خلاف احتجاج بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ہوکر دم توڑ دے گا اور احتجاجی تھک کر خاموش ہوجائیں گے۔ ملک میں احتجاج کے باوجود شہریت قانون پر گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے مودی حکومت نے اپوزیشن کو اوقات دکھادی ہے۔ اگر یہ عوامی احتجاج کی شکل اختیار کرتا تو مودی حکومت کو گزٹ نوٹیفکیشن کی ہمت نہ ہوتی۔ شہریت قانون دراصل این آر سی کا نکتہ آغاز ہے۔ حکومت عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ہر 10 سال میں ہونے والے مردم شماری سروے کے نام پر این پی آر کو متعارف کرائی ہے۔ این پی آر اور این آر سی میں کوئی خاص فرق نہیں۔

اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ این پی آر تو یہ ایک بہانہ اور این آر سی اصل نشانہ ہے۔ مردم شماری کے نام پر جب غیر مسلموں کے پاس شہریت سے متعلق دستاویزی ثبوت نہ ہوں تو انہیں شہریت قانون کے تحت ہندوستانی شہری تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ شکار تو مسلمان ہوں گے کیوں کہ شہریت قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ دستاویزات سے محروم غیر مسلم تو ملک کے شہری بن جائیں گے لیکن نسل در نسل ہندوستان کو اپنا خون پسینہ دینے والے مسلمان ڈینشن سنٹرس کے حوالے کردیئے جائیں گے۔ اگر کسی کو حراستی مرکز جانے سے بچنا ہے تو اس کے پاس واحد راستہ نام کی تبدیلی کا ہوگا۔ ہندو نام رکھ کر شہریت حاصل کی جاسکتی ہے اور سنگھ پریوار کی گھر واپسی سازش کی تکمیل بآسانی ہوجائے گی۔ شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ مودی حکومت غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان ایسے ممالک ہیں جہاں سے دہشت گرد سرگرمیوں کا خطرہ ہمیشہ ہندوستان کو رہا ہے۔ ہندوستان کی سالمیت اور ایکتا کے لیے بلند بانگ دعوے کرنے والی بی جے پی اب پاکستانیوں کو ہندوستانی شہریت دینے آمادہ ہوچکی ہے۔ اس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ پاکستان سے آنے والا شخص دہشت گرد نہ ہو۔ کوئی بھی اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے ہندوستانی شہریت حاصل کرسکتا ہے اس کے بعد وہ ہندوستانی شہری کی حیثیت سے ملک کے خلاف سرگرمیوں کے لیے آزاد رہے گا۔ جموں کشمیر میں پولیس کے ایک اعلی عہدیدار کو دہشت گردوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ یہ عہدیدار طویل عرصے سے دہشت گردوں سے ربط میں تھا اور انہیں محفوظ راہداری کے ذریعہ کشمیر سے منتقل کرتا رہا۔ افضل گرو نے مذکورہ عہدیدار سے روابط کا انکشاف کیا تھا لیکن اس وقت کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اگر یہ عہدیدار کوئی مسلمان ہوتا تو سارا میڈیا اور حکومت آسمان سرپر اٹھالیتی۔ چوں کہ یہ عہدیدار مسلمان نہیں ہے لہٰذا اخبارات کے اندرونی صفحات اور الیکٹرانک میڈیا میں غیر اہم انداز میں خبروں کو پیش کیا گیا۔ یہ میڈیا کی جانبداری نہیں بلکہ مودی حکومت کی خدمت ہے جو گودی میڈیا گزشتہ پانچ برسوں سے انجام دے رہا ہے۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ بی جے پی قائدین اپنی زبانوں سے زہر اگل رہے ہیں۔ شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو مغربی بنگال بی جے پی کے صدر دلیپ گھوش نے کتوں کی طرح گولی ماردینے کی بات کہی۔ دوسری طرف اترپردیش کے بی جے پی قائد رگھوراج سنگھ نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ مودی اور یوگی کے خلاف نعرہ لگانے والوں کو زندہ دفن کردیا جائے۔ نریندر مودی شائد اپنے نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کو بھلاچکے ہیں۔ مودی اور امیت شاہ کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات کا نوٹ تک نہیں لیا گیا اور نہ قائدین کی سرزنش کی گئی۔ بی جے پی قائدین اپنے زہریلے بیانات کے ذریعہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو دھمکانے اور حوصلے پست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں ان کی سرزنش کے بجائے بی جے پی قیادت حوصلہ افزائی کرے گی۔ وسیم بریلوی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
ہم بتائیں تو بتانے کی ضرورت کیا ہے
کس کو معلوم نہیں آپ کی نیت کیا ہے