کشمیر کا قدیم ہنر ’ویلو کرافٹ‘، ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا سہارا

   

سری نگر۔ 27 ستمبر (یو این آئی) وادی کشمیر کے قدیم فنون میں ایک انمول ہنر ’ویلو کرافٹ‘ بھی جسے عام زبان میں ٹوکری سازی کہا جاتا ہے ۔ یہ فن نہ صرف کشمیر کی صدیوں پرانی تہذیبی وراثت کا حصہ ہے بلکہ ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ بھی ہے ۔سری نگر سے لے کر بانڈی پورہ، بارہمولہ اور گاندربل تک، اس صنعت سے جڑے کاریگر آج بھی اپنی محنت اور لگن سے ایسی شاہکار چیزیں تیار کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر مقامی اور غیر ملکی خریدار حیران رہ جاتے ہیں۔ ویلو کرافٹ کا فن کشمیر میں کئی صدیوں سے رائج ہے ۔ مورخین کا ماننا ہے کہ یہ ہنر وسطی ایشیا اور ایران کے راستے وادی میں آیا۔ چونکہ کشمیر کی زمین اور موسم ویلو یعنی بید درختوں کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہیں، اس لیے یہاں کے کسانوں نے اسے بڑے پیمانے پر اگانا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ مقامی کاریگروں نے اس لکڑی کی لچک اور پائیداری کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹوکریاں، کرسیوں، کرکٹ بیٹس کے کور، اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء بنانی شروع کیں۔ویلو کرافٹ کی سب سے بڑی خوبی اس کا قدرتی اور ماحول دوست ہونا ہے ۔ یہ فن پلاسٹک اور دھات کے مقابلہ میں سستا، پائیدار اور خوبصورت متبادل فراہم کرتا ہے ۔ اس سے تیار شدہ ٹوکریاں، کور اور دیگر مصنوعات نہ صرف مضبوط ہوتی ہیں بلکہ ان میں ایک قدرتی کشش اور کشمیری تہذیب کی خوشبو بھی جھلکتی ہے ۔ مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویلو لکڑی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ آسانی سے شکل اختیار کر لیتی ہے ۔
اس لیے اس سے بنائی گئی چیزیں ہلکی پھلکی ہونے کے باوجود دیرپا ثابت ہوتی ہیں۔اس ہنر کے ایک سینئر کاریگر غلام نبی نے یو این آئی کو بتایا کہ چند برس قبل تک یہ کاروبار خوش اسلوبی سے چل رہا تھا اور ملکی و غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں ہاتھ کی بنی اشیاء خریدتے تھے ۔ تاہم، پہلگام میں حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد سیاحوں کی آمد میں نمایاں کمی آئی ہے جس نے اس کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔