کل جہاں بابری مسجد تھی، کل وہاں رام مندر ہوگی

,

   

’وکاس پرش‘ مودی کا ’نیا ہندوستان‘……

ایودھیا میں وزیراعظم نے مندر کیلئے سنگ بنیاد رکھا۔ یوپی گورنر ، چیف منسٹر یوگی ، موہن بھاگوت کی شرکت
ایودھیا: سعودی عرب یا کسی دیگر مسلم ملک میں نئی مسجد تعمیر ہوتی ہے تو معمول کی بات ہے۔ ہندوستان میں یا نیپال میں نئی مندر تعمیر ہوتی ہے تو یہ بھی معمول کی بات ہے۔ تاہم، ان میں سے کسی جمہوری ملک میں کوئی مخصوص عبادتگاہ منہدم کرکے پیچیدہ اور مشکوک طریقوں سے وہاں کی اراضی حاصل کرکے ارباب اقتدار اگر دیگر فرقہ کی عبادتگاہ تعمیر کرتے ہیں تو یہ بلاشبہ خلاف معمول اور تشویش کی بات ہے۔ ہندوستان میں 5 اگست 2020ء کی تاریخ اسی طرح یاد رکھی جائے گی جس طرح 6 ڈسمبر 1992ء کا معاملہ ہے۔ آخری الذکر تاریخ کو صدیوں قدیم بابری مسجد اکثریتی فرقہ کے جنونیوں نے شہید کردی تھی اور آج اسی مقام پر وزیراعظم نریندر مودی نے بھومی پوجن میں شرکت کرتے ہوئے زبردست رام مندر کی تعمیر کیلئے سنگ بنیاد رکھا۔ یہ نکتہ ہی اپنے آپ میں ناقابل قبول سرگرمی کی عکاسی کرتا ہیکہ مودی پہلے پی ایم بن گئے جس نے ایودھیا میں رام جنم بھومی اور ہنومان گڑھی مندر کا دورہ کیا۔ سیکولر ہندوستان میں کسی بھی فرد کو شخصی طور پر اپنے عقیدہ پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے مگر مودی نے بحیثیت وزیراعظم مخصوص مذہبی تقریب میں شریک ہوکر غلط نظیر قائم کی ہے۔ یہ اس لئے کہا جارہا ہے کیونکہ انہوں نے واضح نہیں کیا کہ وہ نجی طور پر یعنی شخصی حیثیت سے نہ کہ وزیراعظم کے طور پر ایودھیا جارہے ہیں۔ چہارشنبہ کو لگ بھگ دوپہر وزیراعظم مودی مندروں کے ٹاؤن ایودھیا پہنچے جہاں رام مندر کی تعمیر کیلئے مہم نے بی جے پی کو 1990ء کے آس پاس ملک گیر سطح پر تقویت بخشی تھی۔ مودی نے منہدمہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کیلئے سنگ بنیاد کی تقریب میں حصہ لیا اور 40 کیلو کی چاندی سے بنی علامتی اینٹ رکھی۔ اس موقع پر بی جے پی کی مادر تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت، اترپردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل اور میزبان چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے علاوہ نامی گرامی سادھو سنتوں کی قابل لحاظ تعداد شریک تھی۔ ہندوؤں کا ماننا ہیکہ اسی مقام پر لارڈ رام کا جنم ہوا تھا۔

مودی نے تقریب کے بعد کہا کہ صدیوں کا انتظار ختم ہوا ہے۔ اتفاق سے آج جموں و کشمیر کیلئے خصوصی درجہ عطا کرنے والے دستوری آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے پہلے سال کی تکمیل بھی ہوئی۔ ملک بھر میں عوام ٹیلیویژن پر نظریں جمائے رہے اور ’رام جنم بھومی‘ میں بھومی پوجن کا لائیو ٹیلی کاسٹ دیکھا۔ ٹی وی پر مشاہدہ کرنے والوں میں رام مندر تحریک کے نمایاں قائدین سابق نائب وزیراعظم ایل کے اڈوانی اور سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی پیرانہ سالی کے پیش نظر کوروناوائرس کے ماحول میں بھومی پوجن میں شرکت سے گریز کیا۔ مجموعی طور پر 175 خصوصی مدعوئین آج کی تقریب میں شریک ہوئے جن میں سری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ کے سربراہ نرتیہ گوپال داس شامل ہیں جنہیں پی ایم مودی کے ساتھ ڈائس پر دیکھا گیا۔ وزیراعظم مودی کی ماں ہیرابا نے بھی تقریب کا ٹی وی پر مشاہدہ کیا۔ ملک بھر میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے آج کی تقریب میں وزیراعظم مودی کی شرکت پر مثبت اور منفی ردعمل ظاہر کیا۔ علاوہ ازیں بعض نے توجہ دلائی کہ ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت اور اترپردیش کا یوگی نظم و نسق مذہبی تقریب میں مشغول ہوگیا ہے۔ یہ ملک کیلئے اچھی علامت نہیں۔ کورونا مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اور چند ہفتوں کی بات ہیکہ ہندوستان عالمی فہرست میں برازیل کو بھی چھوڑ کر سب سے زیادہ متاثرین میں امریکہ کا کے بعد دوسرا ملک بن جائے گا۔ تقریباً 6 ماہ سے لاک ڈاؤن اور مختلف نوعیت کی تحدیدات نیز صنعت و تجارت کی بری حالت نے قومی معیشت کو تباہ کر رکھا ہے۔ یہ بات نمایاں ہیکہ 2013ء میں وکاس (ترقی) کے نعرے پر مودی مرکزی اقتدار تک پہنچے تھے تب نہ نوٹ بندی کے ذریعہ ’بدترین معاشی اسکام‘ پیش آنے کا اندازہ تھا اور نہ گڈس اینڈ سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی ناقص منصوبہ بندی کے ذریعہ پورے تجارتی شعبہ کو زک پہنچنے کا سوچا تھا۔ تاہم 2014ء سے 6 برسوں میں مودی زیرقیادت حکومت نے عوام کو صرف مسائل دیئے ہیں اور ترقی کا موضوع آج زبان پر تک نہیں آتا۔ تقریباً ابتدائی دو ڈھائی سال کے بعد سے مودی حکومت کی حرکتوں اور سرگرمیوں کا یہ تسلسل ہی ہے کہ آج سرکاری سرپرستی میں مذہبی تقریب دھوم دھام سے منعقد کی گئی۔ ’وکاس پرش‘ مودی کا شاید یہ ’نیا ہندوستان‘ ہے!