سیاست فیچر
ایک ادیب و شاعر کیلئے اس کا پرواز تخیل اس کی سوچ و فکر کی پاکیزگی اور اس کی تخلیق کا چاہے وہ نظم کی شکل میں ہو یا نثر کی شکل ہو ، معاشرہ پر کیا اثر ہوتا ہے ۔ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ، کسی شاعر کی شاعری اور کسی ادیب کی تحریر کسی کہانی نویس کی کہانی اور کسی افسانہ نگار کے افسانہ کی اہمیت و مقبولیت کا پیمانہ عام لوگوں پر مرتب ہونے والے اس کی ادبی تخلیق کے اثرات ہوتے ہیں۔ بہرحال آج کل جنوبی ہند کی ایک افسانہ نگار محترمہ بانو مشتاق کے بہت زیادہ چرچے ہیں اور اس کی وجہ بھی ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں ہماری پڑوسی ریاست کرناٹک کی ادیبہ بانو مشتاق کی جنہیں ان کے افسانوں کے مجموعہ ’’ہارٹ لیمپ‘‘ کیلئے ادب کا باوقار انٹرنیشنل بکر پرائز 2025 عطا کیا گیا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ 77 سالہ بانو مشتاق اردو یا انگریزی کی ادیبہ نہیں ہیں بلکہ وہ کنٹرا زبان کی ادیبہ ہیں۔ آپ کو یہ بتانا چاہیں گے کہ بانو مشتاق کے اس کنڑی کہانیوں کے مجموعہ میں 12 کہانیاں شامل ہیں اور یہ ایسی کہانیاں ہیں جس کے ذریعہ معاشرہ میں صنف نازک اور مردوں کے درمیان پائے جانے والے برتری کے فرق کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اس کا کنڑ سے انگریزی ترجمہ ’’ہارٹ لیمپ‘‘ کے زیر عنوان سے دیپا بھاستی نے کیا ہے ۔ 1948 میں پیدا ہوئی بانو مشتاق نہ صرف ایک ادیبہ ہیں ، ساتھ ہی وہ حقوق نساں کی علمبردار اور وکیل ہیں ۔ ان کے بارے میں جو تفصیلات منظر عام پر آتی ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہے کہ بانو مشتاق اپنی کہانیوں کے ذریعہ خواتین بالخصوص مسلم خواتین کے مسائل کو منظر عام پر لاتی ہیں۔ بکر پرائز کی ویب سائیٹ کے مطابق بانو مشتاق کا کہنا ہے کہ خواتین کی تکلیف ، اذیت اور بے بسی سے پُر زندگیاں ان (بانو) پر گہرا جذباتی اثر ڈالتی ہیں ۔ وہ ا پنے دل کو ہی اپنے مطالعہ کا شعبہ قرار دیتی ہیں۔ یہاں اس بات کا تدکرہ ضروری ہوگا کہ بکر پرائز 1969 میں قائم کیا گیا اور ہر سال ادبی کمیونٹی کے کسی غیر معمولی رکن کو بکر پرائز فاؤنڈیشن یہ ایوارڈ عطا کرتا ہے ۔ جہاں تک بکر پرائز کا سوال ہے ، یہ ایوارڈ 50 ہزار اسٹرلنگ پاؤنڈ پر مشتمل ہوتا ہے ۔ پہلا بکر پرائز ایوارڈ PHNEW by کو ان کی ناول پر دیا گیا ۔ اب تک جن ہندوستانی ادیبوں کو اروندھتی رائے ، اروندادیگا ، گیتانجلی شری (ادیبہ) اور دیسی راک ویل (مترجم) ، کرن دیسائی ، ملعون سلمان رشدی ، وی ایس نائپال وغیرہ شامل ہیں ۔ ہم بات کر رہے ہیں بانو مشتاق کی کہانیوں کی ان کیلئے اور کنڑ زبان اور ریاست کرناٹک کیلئے یہ اعزاز ہے کہ پہلی مرتبہ کسی کنڑ ادیبہ کو یہ ایوارڈ حاصل ہوا ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان کی مختصر کہانیوں کے تراجم اردو ، ہندی ، ٹامل ، ملیالم اور انگریزی زبان میں ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ بانو مشتاق کی پیدائش کرناٹک کے علاقہ ہاسن 1948 میں ہوئی 8 سال کی عمر میں کنڑ زبان کے مشنری اسکول (شموگہ) میں داخل کیا گیا اور صرف 6 ماہ میں انہوں نے کنڑ پرھنا اور لکھنا سیکھ لیا۔ وہ کنڑی ہندی ، دکھنی اردو اور انگریزی میں بات چیت کرسکتی ہے ۔ بانو مشتاق نے ماضی میں لنکیش پتریکا کیلئے رپورٹر کی حیثیت سے کام بھی کیا اور چند ماہ آل انڈیا ریڈیو بنگلور میں خدمات انجام دی اور 29 سال کی عمر سے کہانیاں لکھنی شروع کی ۔ مختصر کہانیوں کے 6 مجموعہ ایک ناول ، لکھ چکی ہیں۔ وہ شاعرہ بھی ہیں، ان کی ایک کہانی کری ناگارا گالی، حسینہ نامی فلم میں اپنائی گئی ۔ بانو مشتاق نے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حق میں حجاب کی بھرپور تائید و حمایت کی تھی ۔ انہیں 1999 ء میں کرناٹک ساہتیہ اکیڈیمی ایوارلا ، دانا چنتا منی اتی مابے ایوارڈ، پن انگلش ٹرانسلیٹ ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے ۔ اس کتاب کی مترجم دیپا بھاستی نے بکر پرائز ویب سائیٹ کو بتایا کہ بانو مشتاق کی کہانیاں ، اقتدار کے سامنے سچ بولتی ہیں اور معاشرہ میں ذات پات طبقہ واریت اور مذہب کی گہری تقسیم کو بے نقاب کرتی ہیں۔ یہاں اس بات کا تدکرہ ضروری ہوگا کہ بکر پرائز جیتنے والی یہ ہندوستانی زبان کی دوسری کتاب ہے ۔ سال 2022 میں گیتانجلی شری کی ہندی ناول ’’ریت سمادھی‘‘ کے انگریزی ترجمہ Tomb of Sand کو باوقار اعزاز عطا کیا گیا تھا۔