چین کا ناکام طریقۂ علاج ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن کی ترغیب پر مستعمل ۔ ڈاکٹر رچرڈ کی20سال سے دستیاب کامیاب ادویات کورونا وائرس کیخلاف کارگر
ڈلاس (امریکہ ) : کورونا وائرس بنیادی طورپر نمونیا کی انوکھی شکل ہے اور یہ تنفسی مسئلہ کا باعث بنتا ہے جس کے سبب موت بھی واقع ہوسکتی ہے ۔ تاہم یہ بات نوٹ کرنا چاہئے کہ مریض کو پہلے سے دیگر بیماریاں ہوں تو یہ وائرس زیادہ مہلک ثابت ہوجاتا ہے ۔ امریکی ڈاکٹر رچرڈ بارٹلے نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کووڈ۔19 کے خلاف کامیاب علاج سے واقف ہیں جس کا تائیوان ، جاپان ، سنگاپور اور آئس لینڈ استعمال کررہے ہیں ۔ یہ کامیاب علاج مہنگا نہیں ہے اور ایک قسم کا ڈرگ ہے جسے آستھما (دمّہ ) کے مریض زائد از بیس سال سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ عجیب معاملہ ہے کہ امریکہ اور دنیا کی بیشتر حکومتیں ڈبلیو ایچ او ( عالمی صحت تنظیم ) کی جانب سے پیش کردہ ناکام چینی طریقۂ علاج کو بلا سوچے سمجھے قبول کررہے ہیں ۔ امریکہ کی ہرریاست اور دنیا کے ہر ملک میں پیش آرہی اموات کو راتوں رات روکا جاسکتا ہے بشرطیکہ طبی ماہرین اپنے طریقۂ علاج کو فوری تبدیل کریں۔ بہت تھوڑی تعداد میں ڈاکٹرس اس کا استعمال اپنے مریضوں کے علاج کے لئے کررہے ہیں اور اُنھیں کامیابی مل رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر رچرڈ کا بتایا گیا علاج ہر مریض کے لئے کارگر ہوگا؟ یہ تو وقت بہی بتائے گا لیکن زیادہ تر لوگ جنھوں نے اس طریقہ علاج کو اختیار کیا اُنھیں فوری مثبت نتائج حاصل ہوئے۔ اسی طریقے سے تائیوان (24 ملین آبادی ، 7 اموات ) ، جاپان (126ملین آبادی ، 977 اموات ) ، سنگاپور ( 5.6 ملین آبادی ، 26اموات ) ، آئس لینڈ (3.41 لاکھ آبادی ، 10 اموات ) نے کورونا وائرس کے خلاف کامیابی حاصل کی ہے ۔ ڈاکٹر رچرڈ گورنر رک پیری کے لئے 7 سال تک طبی مشیر کے طورپر کام کرچکے ہیں ۔ وہ ٹیکساس میں 28 سال سے میڈیکل پریکٹس کررہے ہیں ۔ گورنر پیری نے اُنھیں ہیلت سے متعلق ٹاسک فورس کے لئے دو سال تک کام کرنے کیلئے مقرر کیا تھا لیکن وہ سات سال تک خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ دنیا بھر میں کئی طبی تحریکات سے وابستہ رہے ہیں ۔ ڈاکٹر رچرڈ کا کہنا ہے کہ وہ کووڈ۔19 کے اپنے مریضوں کو سانس کے ذریعہ جسم میں داخل کئے جانے والا اسٹیرائیڈ تجویز کررہے ہیں جو آستھما کے معاملے میں معروف علاج ہے ۔ نہ صرف یہ علاج کارگر ثابت ہورہا ہے بلکہ اُن کے کئی مریض چند گھنٹوں میں بہتری محسوس کررہے ہیں ۔ بہترین اثر کے لئے اس دوا کو نیبولائیزر مشین کے ذریعہ دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رچرڈ کے مطابق اُن کے 100 فیصدی مریض حیات ہیںاور یہ طریقۂ علاج وہ مارچ 2020 ء سے آزمارہے ہیںیعنی چار ماہ سے اس دوا کا کامیاب استعمال کررہے ہیں ۔ اُنھوں نے بتایا کہ کووڈ۔19 قطعی مرحلے میں تنفس کا ایسا مسئلہ ہے جس میں مریض کے لئے معمول کے مطابق سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے ۔ اس لئے ایسی مؤثر دوا چاہئے جو تنفسی نالی میں سوزش یا جلن کو دور کرتے ہوئے ہوا کے لئے راہ ہموار کرے ۔ ڈاکٹر رچرڈ جو دوا دیتے ہیں وہ دراصل تین ادویات کا حصہ ہے ۔ سب سے پہلے آستھما سے متعلق اسٹیرائیڈدیا جاتا ہے جس کے مکمل علاج پر 200 ڈالر (تقریباً 15000 روپئے ) کی لاگت آتی ہے ۔ اسے نیبولائیزر کے ذریعہ پانچ منٹ تک سانس کے ذریعہ بدن میں داخل کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر رچرڈ نمونیا کے ثانوی انفیکشن سے تحفظ کے لئے ایک اینٹی بائیوٹک دوا دیتے ہیں ، نیز زنک بھی تجویز کرتے ہیں جو وائرس کے پھیلاؤ کو روکتا ہے ۔ ڈاکٹر رچرڈ نے بتایا کہ مریض اُنھیں ابتدائی علاج کے دوران ہی کہتے ہیں کہ اُنھیں بہتر محسوس ہورہا ہے ۔ اُن کے سینے کی تکلیف دور ہوجاتی ہے ، اُن کے سانس لینے میں دشواری دور ہوجاتی ہے ۔ پھر اُن کا بخار بھی ختم ہوتا ہے ۔ یہ نہایت محفوظ دوا لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں پر استعمال کی گئی جن میں حاملہ خواتین شامل ہیں۔ زائد از 20 سال ہوگئے قلب پر حملے کی شکایتیں نہیں ملی ہیں۔ ڈاکٹر رچرڈ نے کہاکہ اس دوا پر پہلے ہی کافی ریسرچ ہوئی ہے اور یہ کافی محفوظ ہے ۔ ناکام چینی طریقۂ علاج کو اختیار کیا جارہا ہے کیونکہ ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن اسے بڑھاوا دے رہی ہے ۔ بعض ممالک پہلے ہی اس ناکامی کو سمجھ چکے ہیں اور اُنھوں نے اسے چھوڑکر ڈاکٹر رچرڈ بارٹلے کے کامیاب طریقہ علاج کو اپنالیاہے ۔