نئی دہلی: ساری دنیا میں پھیلی کورونا وباء کی وجہ سے غریب لوگوں پر خاص طور پر ایسے لوگ جن کا تعلق درمیانی طبقے سے ہے، انہیں کووڈ کے علاج کے لیے مختلف ہاسپٹلس سے اتنی زیادہ رقم کے بلس پیش کئے گئے کہ ان کی انفرادی حیثیت ان بلس کو ادا کرنے کی بالکل نہیں تھی اور مجبوراً انہیں فنڈ ریزنگ پلاٹ فارم جیسے کیٹو، ملاپ اور گیو انڈیا کی جانب توجہ کرنی پڑی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی غریب آدمی اپنے علاج کی رقم فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو اس کے دوست احباب اور رشتہ دار اس کی مدد کرتے ہیں مگر کورونا کی دوسری لہر نے اچھے خاصے مالدار افراد کی بھی نیندیں ارادی اور وہ اس قابل نہیں رہے کہ ہاسپٹلس کے خطیر رقمی بلس ادا کرسکیں۔ مختلف ایپس کے ذریعہ رقم جمع کرنے کو ’’کرائوڈ فنڈنگ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا مطلب سمجھنے میں لوگ کبھی کبھی غلطی کر جاتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ مدد کرنے والے ایپس سے رابطہ کرتے ہوئے کوئی بھی غریب شخص اپنی مجبوری کا اظہار کرتا ہے لیکن اس کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ مجبوری حقیقی ہونی چاہئے۔ اس موقع پر ایک تجزیہ کے ذریعہ یہ بات سامنے آئی کہ وجیا یروا نامی ایک خاتون کو 60 لاکھ روپئے کا بل پیش کیا گیا۔ ان کا علاج حیدرآباد کے ایک خانگی ہاسپٹل کے آئی سی یو میں چل رہا تھا۔ ہاسپٹل میں ان کے ساتھ ان کا شوہر اور ان کی چھ سالہ بیٹی بھی ہمیشہ موجود رہتی تھی۔ کرائوڈ فنڈنگ ۔ دی اسٹوری آف پیوپل کے نام سے روینا بنزے اور عرفان بشیر نے ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے جس میں رقومات کے حصول کے لیے مختلف طریقہ کار کا تذکرہ کیا گیا۔ خصوصی طور پر ہیلتھ کیر سسٹم میں اس سے سب سے زیادہ استفادہ کیا گیا۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ بعض معاملات اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ فنڈ ریزنگ کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوتا۔